سه شنبه, اپریل 29, 2025
Homeخبریںایمنسٹی انٹرنیشنل وبی آر ایس او کی جانب سے مشترکہ سیمینار منعقد،

ایمنسٹی انٹرنیشنل وبی آر ایس او کی جانب سے مشترکہ سیمینار منعقد،

برلن (ہمگام نیوز)بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ 4اپریل کو جرمنی کے شہر کیم نٹس میں ایمنسٹی انٹر نیشنل اور بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے ٹیکنیکل یونیورسٹی کیم نٹس میں بعنوانِ “نہ معلوم ریجن کے کئی تنازعات”سیمینار منعقدکیا گیا جس میں ایمنسٹی انٹرنیشل اور بی آر ایس او کے نمائندوں نے خطاب کیا۔
سیمینار کی افتتاع پر بی آر ایس او کی جانب سے 10منٹ کی ڈاکومینٹری ویڈیو چلائی گئی جس میں بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت قتل، اغواء نماء گرفتاریوں، بلوچستان کی سیاسی صورتِ حال اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے شرکاء کو آگاہ کیا گیا۔
بی آر ایس او کے نمائندوں نے تعلیم، صحت، ترقی اور بلوچ قوم کی حالتِ زار پر پریزنٹیشن پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہندو، کرسچن سمیت دیگر اقلیتیں صدیوں سے سکون سے رہہ رہے تھے لیکن 2005کے بعد سے پاکستانی ریاست نے اقلیتوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے جن میں سب سے زیادہ ہزارہ کمیونٹی اور ذکریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ سیکولر بلوچ معاشرے کو مذہبی رنگ دیکر دنیا میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا سکے ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان مذہبی دہشتگر د تنظیموں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے جو بلوچستان بھر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔تعلیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یونائٹڈ نیشن گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 70%بچے اسکولوں سے دور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان بھر میں تعلیم کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے، بلوچستان بھر میں 5000ایسے اسکول ہیں جو صرف ایک کمرہ پر مشتمل ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گوسٹ اسکول موجود ہیں جبکہ 80% ایسے اسکول ہیں جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

بی آر ایس او کے رہنماؤں نے بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشنوں اور ان فوجی آپریشنوں کے مقاصد سے شرکاء کو تفصیل سے آگاء کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستانی فوج نے بزورِ طاقت قلات ریاست کو پاکستان کا حصہ بنایا، 26 مارچ 1948 کو پاکستانی آرمی کو بلوچستان کے ساحلی پھٹی میں بھیجا جس کے دوسرے دن 27 مارچ کو یہ اعلان کیا گیا کہ قلات ریاست کو پاکستان میں ضم کردیا گیا ہے۔ 1948 سے موجودہ دن تک بلوچستان میں پاکستانی آرمی اور خفیہ ایجنسیوں نے کئی سازشیں رچھائی تاکہ بلوچ قوم کو تا ابد غلام بنائے رکھے۔
انہوں نے فوجی آپریشنوں سے پیدا ہونے والی صورت کے بارے میں شرکاء کو بتایا کہ پاکستانی ریاست کی طرف سے ہمیشہ یہی کوشش کی گئی ہے بلوچ قوم کوبندوق کی زور پر خاموش کیا جائے، جب کبھی بھی بلوچوں نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا یا انہیں اغواء کر کے سالہ سال ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دی گئی۔
بی آر ایس او کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے حقیقی سیاسی جماعتوں کو ریاست پاکستان کی جانب سے قالعدم قرار دیا گیا ہے تاکہ انہیں کسی بھی طرح بلوچ قوم کے حقوق کی جدوجہد سے روکھا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ 1973میں جب بلوچوں نے اپنے حقوق کے لے آواز بلند کی تو اس کے بدلے میں 70ہزار کے قریب بلوچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔اسی طرح جب 2002میں نواب اکبر خان بگٹی نے بلوچستان میں جاری ریاستی سازشوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے بلوچ قوم کو متحد کرنے کے کوشش کی تو ان کے خلاف پاکستانی آرمی نے جنگ کا اعلان کر دیا تاکہ انہیں بھی خاموش کیا جاسکے۔ 2002سے 2006تک کئی بار نواب اکبر خان کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی جس میں آخر کار پاکستانی ریاست کو 26اگست کو کامیابی ملی اور نواب اکبر خان بگٹی جو 80سالہ بزرگ بلوچ رہنماء تھے کو 26اگست 2006کو بے دردی سے شہید کر دیا گیاجس کے بعد سے اب تک بلوچستان میں مارو ار پھینکو والی ریاستی پالیسی جاری ہے۔
بی آر ایس او کے رہنماؤں نے کہا کہ شہید نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعدبلوچ قوم کے حقیقی سیاسی جماعتوں کو قالعدم قرار دیا گیا تاکہ انہیں بلوچ قوم کو متحد کرنے سے روکھا جائے لیکن ان تمام عربوں کے باوجود بلوچ قومی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی اور بلوچ قوم کو موبولائز کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن پاکستانی ریاستی فورسز نے بلوچ قومی تحریک کوکچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور بلوچ رہنماؤں اور کارکنوں کو اغواء کرکے بے دردی سے شہید کیا اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل کے نمائندوں نے بلوچستان بھر میں انسانی حقوق کی بگھڑتی ہوئی صورتِ حال اور بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے رپورٹ کے مطابق پاکستانی خفیہ ادارے بلوچ سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغواء اور قتل کرنے میں ملوث ہیں۔ انکا کہنا تھابلوچستان میں 8000لوگوں کو غائب کیا گیا ہے اور 700سے زاہد مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جنہیں اغواء کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندوں نے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنماء ڈاکٹر بشیر عظیم ، شہید جلیل ریکی اور بی ایس او آزاد کے رہنماء شبیر بلوچ اور سما جی رہنماء کامریڈ واحد کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ کس طرح پاکستانی ریاستی فورسز نے ڈاکٹر بشیر عظیم، کامریڈ واحد، شبیر بلوچ کو اغواء اور جلیل ریکی کو شہید کیا۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے وہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرینگے ۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹر نیشنل اوربی آر ایس او کے مشترکہ سیمنار کو روکنے کے لیے پاکستانی ریاست نے کئی کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔ پاکستانی آفیشلز کی جانب سے ٹیکنیکل یونیورسٹی اور ایمسٹی انٹرنیشنل کو خط لکھا گیا کہ بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بلوچ ریپبلکن پارٹی کا طلبہ ونگ ہے اور دونوں جماعتیں پاکستان میں کالعدم قرار دیے جا چکے ہیں۔خط میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بلوچستان پاکستان کا اندورنی معاملہ ہے اوریہ انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس طرح کے مسائل پر یونیورسٹیوں میں بحث نہ کیا جائے۔ لیکن ایمنسٹی انٹر نیشنل اور یونیورسٹی انتظامیہ نے درخواست رد کردیا اور سیمینار کے حق میں فیصلہ دیا۔
سیمینار والے دن پاکستانی طلبہ کی طرف سے کئی بار کوششیں کی گئی کے کسی بھی طرح سیمینار کو کینسل کیا جائے لیکن وہ بُری طرح ناکام رہے ایمسنسٹی نٹر نیشنل اور بی آر ایس او کے نمائندوں نے پاکستانی طلبہ کے سوالات کا تفصیل سے جواب دیا اور کئی بار ایمنسٹی انٹر نیشنل نے نمائندوں نے پاکستانیوں کو سیمینار ہال سے نکلنے کے لیے بھی کہا۔
بی آر ایس او کی جانب سے جاری کرد ہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 5اپریل کو جر منی کے شہر کیم نٹس میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس کا مقصد بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا تھاجبکہ مظاہرے کے دوران پمفلٹس بھی تقسیم کیے گئے جن میں بلوچستان میں جاری ریاستی بر بریت اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے حوالے سے تفصیلات موجود تھے

یہ بھی پڑھیں

فیچرز