جمعه, اپریل 25, 2025
Homeخبریںایک قیدی کو الگ کرنا نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک جدوجہد، اور...

ایک قیدی کو الگ کرنا نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک جدوجہد، اور مزاحمت کی علامت کو توڑنے کی کوشش ہے۔ نادیہ بلوچ

شال (ہمگام نیوز) ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے سماجی رابطے ایکس پر کہا تقریباً 24 گھنٹے کی خاموشی اور گمراہی کے بعد بالآخر پشین ڈسٹرکٹ جیل انتظامیہ نے تصدیق کر دی ہے کہ بیبو بلوچ وہاں قید ہیں۔ نہ ان کے اہلِ خانہ کو ملاقات کی اجازت دی گئی نہ وکلا کو رسائی دی گئی۔ اُنہیں پشین منتقل کرنے سے قبل جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ذہنی و نفسیاتی اذیتیں دی گئیں اور یہ سب کچھ ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہوا۔

انہوں نے کہا ‏گزشتہ شب اور آج صبح تک جیل انتظامیہ بیبو کی موجودگی کو چھپاتی رہی، لیکن اب جب دباؤ بڑھا تو مجبوراً سچ سامنے لانا پڑا۔ یہ محض ایک قیدی کو الگ کرنا نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک جدوجہد، اور مزاحمت کی علامت کو توڑنے کی کوشش ہے۔

‏انہوں نے کہا بیبو کو ماہ رنگ اور گلزادی سے الگ کرنا اس ریاستی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد انہیں تنہائی، تشدد اور خوف کے ذریعے جھکانا ہے تاکہ وہ ایک ظالمانہ، غیرقانونی اور بے بنیاد معاہدے پر دستخط کر دیں، جسے وہ پہلے ہی ٹھکرا چکی ہیں۔

‏انہوں نے کہا یہ صرف غیر آئینی اقدام نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہمیں شدید خدشہ ہے کہ اب ماہ رنگ اور گلزادی کو بھی اسی منصوبے کے تحت الگ کیا جائے گا اور تینوں کو انفرادی سیلز میں ڈال کر مکمل تنہائی میں رکھا جائے گا۔

‏یہ وہ لمحہ ہے جب خاموشی جرم بن جاتی ہے اور بولنا مزاحمت۔ جیلوں کو اذیت گاہوں میں تبدیل کرنا نہ قانون ہے، نہ انصاف۔ یہ ظلم ہے، اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر باشعور فرد کا فرض ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز