Homeآرٹیکلزبات بس اعتبار کی ہے۔ تحریر: رزاک بلوچ

بات بس اعتبار کی ہے۔ تحریر: رزاک بلوچ

انٹرنیشنل فنانشل مارکیٹ میں کسی بھی ادارے، فرم، آرگنائزیشن یا کمپنی اور ملک کی اکانومی سطح کو جانچنے اور اسکی اعتباری گراف کو ناپنے کے لیے اور کئی چیزوں کے ساتھ اسکی کریڈٹ ریٹنگ ضرور دیکھی جاتی ہے۔ایسا بھی نہیں فرسٹ ورلڈ ممالک اپنی دیوہیکل معیشتوں کے ساتھ قرضے اور لین دین سے مبرا ہوں، وہاں روزانہ کی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب قرض لئے اور دئیے جاتے ہیں تاکہ کاروباری نظام بہتر انداز میں تیزی کے ساتھ حرکت میں رہے۔

سو کریڈٹ ریٹنگ کسی بھی کمپنی کی اعتباری گراف ہے جسے دیکھ کر قرض دہندوں کی طرف سے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کسی مخصوص کمپنی یا ملک کو کتنا قرضہ، کتنی فی صدی سود پر، کتنے عرصے تک کے لیے دے دی جائیں اور اس میں خطرے کے امکانات کتنے زیادہ یا کم ہیں؟

سو جو کمپنی یا ممالک انکے تاریخی ریکارڈز اچھے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ معاہدے کے مطابق ہی قرضوں کی سود سمیت واپسی کی ہو، انکی معاشی حالات بہت اچھے یا بہتر ہوں تو انکے لیے مارکیٹ کے اندر قرضے کا حصول آسان ہوجاتا ہے اور سود کی شرح مروجہ سود سے کم رکھنے کے ساتھ اسکی خطروں کے امکانات کم ہونے کی وجہ سے اسے بآسانی بیمہ پالیسی بھی مل جاتی ہے، انکے اعتباری گراف کے بہتر ہونے سے ایسی کمپنیوں کو دی ہوئی قرضہ جات کو محفوظ قرضہ کہا جاتا ہے۔

کیونکہ ایسی کمپنیاں یا ممالک قابل اعتبار یا مثبت کریڈٹ ریٹنگ کے حامل کہلائے جاتے ہیں اور ان پر کسی بھی وقت آنکھ بند کرکے اعتبار کیا جا جاسکتا ہے۔اس کو فنانس کی زبان میں کریڈٹ ریٹنگ کہا جاتا ہے اور عام زبان میں کل ملا کر یہ اعتبار کی کہانی بن جاتی ہے۔

محمد جب عرب سماج کے سدھار کی مشن لے کر آگے بڑھے تو بہت دیگر عوامل کے ساتھ انہوں نے ایک اعتباری گراف نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس اعتبار کے معیار کو روز بہ روز بڑھاتا گیا جہاں عرب سماج مذہبی بنیادوں پر منقسم ہونے کے باجود محمد کو “ امین “ کا لقب دینے پر مجبور ہوگیا کیونکہ انہوں نے اپنے لئے اعتبار کا ایک گراف بنا لیا تھا تو اس میں اسکے مذہبی مخالف ہوں یاکہ اسکے ساتھی دوست وہ اس بات کے قائل تھے یہ بندہ کتنی تکلیف دہ اور بری حالات میں ہونے کے باوجود اپنے قول سے نہیں پھرے گا، وعدوں کو نبھائے گا جھوٹ نہیں بولے گا امانت میں خیانت نہیں کرے گا یقینا ًایک اعتباری گراف بنانے اور اسے تادیر قائم رکھنے کے واسطے نہ صرف انتہا کی محنت درکار ہے بلکہ اس میں نقصان کا احتمال اور ہزار ہا قسم کی درد سر پالنے کے بعد جاکر ارد گرد کے لوگ کسی پر یقین رکھتے ہیں۔لیکن کاروباری و مذہبی یا سماجی بنیادوں پر اعتماد کی تمہیدی وضاحت کے ساتھ سیاسی اعتبار پر آتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ اعتبار، مفاد اور جبر میں فرق کتنی گہری اور واضح ہے؟

سیاست سبھی سماجی علوم کی بنیاد ہے۔
ارسطو نے کہا تھا کہ “سیاسیات کو تمام علوم پر فوقیت حاصل ہے”
ہم جب اعتبار کی معیار اور پیمانے کو سیاسیات میں لاکر اسے کسی کے فردی لائقیت و فائقیت کے حساب سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر باریکیاں مزید بڑھ جاتی ہیں، افق دھندلا جاتا ہے اور چیزیں قدرے غیر واضح اور سمجھنے کو مشکل ہوجاتی ہیں سو اعتبار کا سیاسیاتی پہلو کا بھی یہی حال ہے، کیونکہ اندھا مقلد، مفاد پرست انسان، جبر سے مجبور بندہ سب اپنی سیاسی وابستگی کو ظاہری حوالے سے اعتبار پر مبنی رشتے سے تعبیر کرتے ہوئے اسے خالص ہی کہیں گے۔ لیکن سوال یہی اٹھتا ہے کہ کیا وہ واقعی اعتبار ہی ہے یا انفرادی مفاد، جبر کی تحت مجبوری اور اندھی تقلید ہے؟

بذات خود تقلید کوئی بری بات ہے نہیں، اعتبار یقینا ًتقلید کو جنماتا ہی ہے، تقلیدی روش اگر منطقی و علمی بنیادوں اندھا پن میں ڈھل جائے تو اعتبار پھر اعتقاد میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے، میں اگر کسی کی طرز زندگی، روش، ایمانداری، سیاسی و سماجی نظریات اور راست گوئی سمیت اسکی کردار سے متاثر ہوں میں یقینا ًاسکی تقلید ہی کروں گا اور اگر میرا تاثر کسی مفاد اور ذاتی غرض و غایت سے واقعی الگ ہے تو تقلید کرنا باعث خیر ہی رہے گا۔

ویسے تو انسانی زندگی کے ہر شعبے میں تمام شعبہ ہائے زندگی مشروط ہیں اور سیاسیات کہیں اور زیادہ مشروط ہے، میں کسی کی تقلید اسکی کردار، عمل، ایمانداری اور سچائی کی بنیاد پر کروں تو وہ تقلید معاشرتی و سیاسی بنیادوں پر ایک صحت مند تقلید ہوگی لیکن اگر میں تقلید یا حمایت ذاتی مفاد اور غرض و غایت کے لیے کرو ںتو وہ اجتماعی مفادات کے لیے تباہ کن ہوگی۔

تقلید شاید بری بات نہ ہو لیکن اندھی تقلید یکسر بری بات ہوگی اور اسکے ساتھ ہی ہر سیاسی کارکن کو یہی ہمیشہ یاد رہے کہ وہ اپنی قائم کردہ اعتبار کو اعتقاد میں تبدیل نہ ہونے دے بس کیونکہ سیاسیات میں اعتبار اور اعتقاد میں بہت ہی نمایاں فرق ہے، اعتبار نہ صرف کردار سے رویوں اور نظریاتی مستقل مزاجی سے تشکیل پاتی ہے بلکہ اعتبار کو منطق اور علمی بنیادوں پر بھی جانچا جاتا ہے کیونکہ اعتبار کی تشکیل اپنے اندر ایک ماضی کی تاریخی تسلسل کو سموئے ہوئے سینکڑوں ناقابل تردید حوالوں پر استوار ہوتا ہے۔

نواب خیربخش مری بلوچ راجی تحریک آجوئی کے لیے کرداری، نظریاتی یا پھر سیاسی رویوں کے باوصف ہر بلوچ کے لیے بااعتبار ہی رہے ہیں اور اس دارفانی سے چلے جانے کے بعد بھی لوگ انہیں ایک اعتباری تمثیل کے طور پر یاد رکھتے ہیں، لیکن وہی نواب خیر بخش مری اپنی زندگی کے تمامتر ادوار سے لے کر بستر مرگ پر بھی اس ندامت کے اظہار سے کبھی نہیں کترائے کہ ستر کے انتخابی عمل میں حصہ دار بن کر پاکستانی پارلیمانی نظام کا حصہ بننا انکی زندگی کی بدترین غلطیوں میں سے ایک تھی، اسے کبھی یہ عمل نہیں کرنا چائیے تھا کیونکہ وہ اس کوتاہی کو اپنے دامن پر لگے ایک ایسے داغ سمجھتے تھے جو ہزار بار دھونے کے باوجود تاریخ کے جھروکوں سے کبھی بھی نمایاں بن کر انکی کرداری اعتبار کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے، وہ اس پارلیمانی شمولیت کے غلط عمل سے بروقت پلٹنے، اور ہمیشہ کے لیے تائب ہونے کے باوجود اپنی اس کی گئی کوتاہی پر تا عمر نادم رہے کیوں کہ انکو یہی احساس تھا اس نے کوتاہی کرتے ہوئے بلوچ اجتماعی فکر کے اندر اپنی سیاسی و نظریاتی اعتباری اوصاف کی گراف کو کمزور کیا ہے، کیونکہ بلوچ اجتماعی فکر و نظر میں ان پر شک کرنے، سوال اٹھانے اور کامل اعتبار نہ کرنے کے لیے ایک تاریخی اور مضبوط حوالہ موجود ہے اور یہی شئے انہیں ہمیشہ اور ہمہ وقت بے چین کیے رکھتا تھا۔

اعتبار نہ صرف بنانا پڑتا ہے بلکہ اپنی کردار، عمل، آدرش، رویوں سمیت نظریات پر مستقل مزاجی اور سیاسی وابستگیوں کے بنا پر اسے تا عمر نبھانا پڑتا ہے۔
اشوک ساحل کہتے ہیں کہ
“ بلندیوں پہ پہنچنا کوئی کمال نہیں
بلندیوں پہ ٹھہرنا کمال ہوتا ہے “
یہ اعتبار کی گراف کو مستقل بنیادوں پر بنائے رکھنے کی جو کٹھنائیاں ہیں یہی سیاسی زندگی میں دی ہوئی تمام قربانیوں سے نہ صرف مشکل ترین بلکہ افضل ترین ہوتا ہے شاید لہو بہانے کی قربانی سے بھی زیادہ اہم تر۔
نواب خیر بخش مری اپنی اس ایک غلطی پر جس درجہ نادم اور پریشان رہے تو رہے لیکن اسکے بعد کی اپنی تمام تر زندگی میں اسنے سبھی کھٹنائیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اپنی اعتبار کو بلوچ قوم کے سامنے پراگندہ ہونے نہیں دیا۔

بلوچ راجی آجوئی کی ماضی کی نشیب و فراز کو دیکھیں یا پھر حالیہ جاری تحریک آزادی کی اس جاری جد و جہد کا مشاہدہ کرکے دیکھ لیں تو بات کھل جائیگی کہ کس کس طرح اور کہاں کہاں بلوچ اجتماعی فکری و نظریاتی اعتبار کے گراف سے کھلواڑ کرنے کے باوجود بھی بسیارے لوگ معتبرٹھہرے ہیں، مفاد پرستانہ سیاسی وابستگی کہیں یا حالات کا جبر۔

کسی سیاسی پارٹی کا بنیادی اکائی اس کے ساتھ شامل ایک کارکن ہوتا ہے، بلوچ آزادی پسند سیاست میں بد قسمتی سے بہت سارے سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، اب اسی سیاسی کارکن کی اعتبار سے بات کو مزید کھولنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک بندہ جو سیاسی کارکن ہے، امبراہ ہے فکری ساتھی ہے جو اپنی سیاست کی ابتداء سے آج تک ایک پارٹی سے جڑی ہوئی ہے، یہ اعتبار کی بنیادی شرط ضرور ہے لیکن ضروری نہیں کہ اعتبار کی معراج بھی یہی ہو، کیونکہ اسکی وابستگی میں ذاتی مفادات کی آمیزش، حالات کی جبر اور دیگر مجبوریوں سمیت اندھی تقلید کا بھی دخل ہوسکتا ہے، لیکن وہ جس پارٹی میں ہے اور موجود ہے تو وہ اس سیاسی کارکن سے نسبتاً کہیں زیادہ کامیاب اور بہتر ہے جوکہ ہر سال اپنی سیاسی وابستگیوں کو کسی دوسری پارٹی میں تبدیل کرتا رہتا ہے، ایسے لوگ کہیں پر بھی قابل اعتبار نہیں رہتے کیونکہ یہ تبدیلی کبھی بھی اور کہیں بھی کسی بہت ہی ادنی بات پر دوبارہ ہوسکتی ہے، لیکن اسکی اہمیت اتنی زیادہ اور یہ کوتاہی اتنی سنگین بھی نہیں ہے کیونکہ کارکن کے ہاتھ میں فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا سو کارکن چار پارٹیاں بدل کر پھر اسی پہلی پارٹی میں واپس آجائے تو اسکو قبولا جاتا ہے مگر نقصان یہ ہے کہ اسکا انفرادی اعتباری گراف بہت نیچے گر جاتا ہے اور اس پر مزید اعتبار کرنا لیڈرشپ کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، اسکے ساتھ ہی ایسے لوگوں کا واپس کسی اور سے وابستہ ہونے کا احتمال ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔

مگر کارکن تو خیر ہے، ہم نے اسی جاری تحریک کے دوران دیکھا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے پارٹیوں سے طریقہ کار اور بنیادی سیاسی رویوں کو لے کر اختلاف کی، اپنے عہدے چھوڑے اور پارٹی سے دست بردار ہوئے، لیکن محض چند سالوں کے بعد وہی لوگ پارٹی کی بنیادی سیاسی اسٹرکچر میں بغیر کسی بنیادی تبدیلیوں اور ماضی کے انہی سیاسی رویوں کی تسلسل کے باوجود وہ واپس اسی میں جاکر ساتھ ہولئے، اب ان پر بلوچ اجتماعی سیاسی فکر کے لیے اعتبار کا کیا تُک بنتا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا، اور وہی لوگ یہی کہتے نہیں تکتے کہ وہ ہی بلوچ اجتماعی تحریکی کاروان کے عوامی اکٹھ یا عرف عام میں “ ماس پارٹی “ ہیں، اب ایسے لوگوں کی مخالف تو خیر چھوڑ دیں، خود انکی پارٹی یا گروہ کے اندر کیا اعتباری حیثیت رہ جاتی ہوگی کیونکہ ان پر یہ شک کا تلوار ہمیشہ لٹکتا رہے گا کہ کسی بھی ایسے موقع پر اگر کوئی چھوڑ جائے گا، پیٹھ دکھائے گا تو وہ یہی برادران ہونگے۔

کارکن اور عہدیداروں کی خیر ہے پوری کی پوری تنظیم اور پارٹیوں کی اپنی نظریات سے دستبرداری کا نظارہ بھی اسی تحریک کے دوران دیکھا گیا، جب دوہزار تیرہ میں زلزلہ ہوا پاکستانی مقبوضہ بلوچستان کے تقریباً جنوب مشرقی تمام علاقے اسکے زد میں آگئے تو بحالی، صحت عامہ اور امداد کے نام پر پاکستانی فوج کو علاقوں کے اندر ایک تو گھسنے کا نادر موقع میسر آیا تو دوسری طرف پورے علاقے کے حالات کے تتر بتر ہونے سے وہاں موجود آزادی پسندوں کے لئے لوجیسٹیکل سپورٹ اور دیگر رسد کی راہیں بھی تقریباً بند ہوگئیں ۔سو پاکستانی قابض فوج کو ایک قدرتی سانحے سے کئی طریقے کی فوجی مداخلت کے فوائد بغیر کسی محنت کہ میسر آگئے، اس پورے ریجن میں ماضی کی کی گئی سیاسی و عسکری غلط بلکہ مہا غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستانی فوج کے لیئے بہت کچھ آسان ہوگیا تھا، اور زلزلے جیسی قدرتی آفت قابض فوج کے لیے سونے پہ سہاگہ ثابت ہوا، راتوں رات تازہ دم عسکری نفری علاقوں میں بھیجی گئی، امداد کے نام پر ریاستی کاسہ لیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے علاقے میں پھیلنا شروع کیا اور پھر تاریخ نے دیکھا جو علاقے عسکری و سیاسی بھلنڈروں کی بنیاد پر محفوظ ٹھکانے و قلعے تصور کیئے جاتے رہے وہ ایک ایک کرتے قابض پاکستانی فوج کے ہاتھوں میں آتے رہے اور علاقے میں موجود عسکری و سیاسی لوگ یا تو علاقہ بدر ہوئے یا پھر محفوظ مسکنوں پر چلے گئے جن مسکنوں سے شہروں کی جانب پہلے ہی سے نہیں آنا چاہیئے تھا۔

متحدہ بلوچ سرزمین کی آزادی کی تحریک ایک فیصلہ ہے، ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کے لیے بلوچ قوم اجتماعی بنیادوں پر سینکڑوں سالوں سے لہو بہاتے اور مختلف النوع قربانیاں پیش کرتی آئی ہے، لیکن چونکہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں، ناعاقبت اندیشیوں اور کی گئی سیاسی غلطیوں کے باوصف یارباش بلوچستان میں عسکری لوجیسٹیکل سپورٹ سمیت پناہگاہوں اور مسکنوں کی آشکار ہونے سے ایسے زچ ہوئے کہ یہیں سے ایران دوست پالیسی کا در وا ہوا، ماضی کی تمامتر بلوچ قومی تاریخ میں سیاسی اعتبار کے گراف کو اس قدر بے اعتباری کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا تھا جو کہ اب کرنا پڑ رہا ہے، بحیثیت سیاسی کارکن میرے لیے یہ شک یقین کے حدوں میں بدلتی محسوس ہوتی ہے کہ ایران اسرائیل کی لگائی گئی اس جنگی اسٹیج میں اگر طاقت کا موجودہ توازن ایران کے حق میں نہ رہا تو یہ ” بے اعتبار ” یار باش ایک پھر انیس سو نواسی کی مالک، کہور اور رازق و جالب نہ بن جائیں اور پاکستان میں واپس آکر پاکستانی پارلیمانی پروسس کو بلوچ عوامی مسائل و بلوچ قومی سوال کے حل کے لیئے بہترین اسٹیج قرار نہ دیں۔
اعتبار ہی سب کچھ ہے میرے دوست!!!!!!

Exit mobile version