دوشنبه, اکتوبر 7, 2024
Homeآرٹیکلزبراہوئی بلوچ تقسیم کا شوشہ ایک سازش ! تحریر سنگت شاہ...

براہوئی بلوچ تقسیم کا شوشہ ایک سازش ! تحریر سنگت شاہ وش بلوچ

ہمگام کالم : تاریخ سچائی اور دیانت کے معیار کو نظریہ اور شعور کے پیمانے سے طے کرتی ہے یہ روایتی سچائیوں سے کئی زیادہ بلند اور دور رس ہوتاہے

بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش بہت پرانی ہے اس کا ابتدا ٕ اس وقت ہوتا ہے جب بیرونی حملہ آور بلوچستان پر قبضہ کرکے اپنے حکومت اور اپنی قبضہ کو تحفظ دینے کے لئے مختلف پروپیگنڈوں کو لے کر بلوچ سماج کو ایک انتشار اور تقسیم سے دوچار کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک منتشر اور بکھرے ہوئے عوام پر آسانی سے حکومت کرسکے اور وہ اس بحرانی صورتحال سے فائدہ اٹھاکر اپنی قبضہ اور نوآبادیاتی حکومت کو تحفظ دے سکے ۔ بلوچ سماج بنیادی طور پر یکجہتی کی علامت ہے یہ اپنی فطرت میں اتنی منقسم اور اتنی ٹوٹ پوٹ کا شکار نہیں تھی جب کہ اس پر مسلط کئے جانے والے حالات ہی اس کی وجہ بنے بلوچ سماج بنیادی طور پریکجہتی اور مہر ومحبت کی علامت ہے قدیم بلوچ قومی تاریخ میں اس قسم کی تقسیمی نظریات کئی بھی اس شدت کے ساتھ موجود نہیں تھے جس طرح برٹش قبضہ کے بعد اس کو تسلسل اور آکسیجن دینے کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ یہ شوشہ اور نعرہ جب کمزور پڑتاہے تو بلوچ سماج اپنی فطرت کے مطابق اس کو رد کرتا ہے ایسے نعرے اپنی آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں تو انہیں دوبارہ سے مصنوعی آکسیجن سے زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ایک ایسی مردہ نعرہ جس کو دوبارہ سے ہوا دیاجارہاہے وہ براہوئی بلوچ کا شوشہ ہے براہوئی اور بلوچ کو دو الگ الگ اقوام میں بانٹنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے تاکہ بلوچ یکجہتی کو کمزور کرکے راۓ عامہ کو گمراہ کرنے کے لیۓ ایک الگ براہوئی شناخت کو ظاہر کیا جائےحالانکہ براہوئی ایک زبان ہے اور بلوچ قوم کی زبان ہے لیکن براہوٸ کوئی الگ قوم نہیں ہےاور نہ اس کی کوئی الگ نسلی پس منظر ہے مجھے یاد ہے بچپن میں جب باوجود کہ ہم پہاڑوں کے درمیان دشت میں جو ہمارا علاقہ تھا لیکن پہاڑوں سےآنے والے کوئی مہمان جب آتھا میرے والد ڈاکٹر تھےاور اپنے قبیلہ کے سفیدریش ان کے پاس علاج یا کسی معاملہ کی تصفیہ کے لیۓ آتے تو ہم سے پوچھا جاتا کہ کون آیا ہے تو ہم کہتے تھے کہ; براہوئی اس بسونے ‘ ان کے لئے پورے علا قہ میں یہی اصطلاح استعمال ہوتا تھا باوجود کہ ہم براہوئی بولتے تھے اور وہ بھی براہوئی یہاں محمد حسنی براہوئی اور بلوچی بولتے ہے اسی طرح سے رند براہوئی اور بلوچی بولتے ہے اور لاشاری براہوئی اور بلوچی میں بات کرتے ہیں۔ شاہوانی ، بادینی سمالانی اور جملہ بلوچ قباٸل دونوں زبانیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بولے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بارے میں طویل تاریخی دلائل موجود ہے اور اس سلسلے میں کئی مورخ دانشور اور بلوچ لکھنے والوں کی دلائل پر مبنی مضامین موجود ہے جبکہ قدیم بلوچ تاریخ کے مطالعہ سے ایسا کوئی ہمیںں مواد نہیں ملتا کہ براہوئی ایک الگ قوم ہے اور بلوچ ایک مختلف قوم براہوئی ایک الگ قوم کا نعرہ سب سے پہلے انگریز امپریلسٹ نے چھوڑا یہ باقا عدہ اس کی سامراجی پالیسی تھی کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو نفاق پیدا کرو اور آسانی کے ساتھ قبضہ کرو اور اس نعرہ میں برٹش دور میں بھی براہوئی اتحادیہ بنا جس میں سارے انگریز گماشتے شامل تھے بلکہ صرف یہ ایک براہوئی بلوچ کا نعرہ نہیں دیا بلکہ بلوچ سماج اور بلوچ قومی و قدرتی خونی و مٹی کے رشتوں کو کمزور کرنے کے لیئے زگری اور نمازی کا سازشی نعرہ بھی لگا یا گیا اور فساد پیدا کیا گیا بلوچ قوم کے تاریخ کے ایک ہیرو میر نوری نصیرخان تک اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر زگری بلوچوں پر چڑھائی کردی نہ صرف یہ بلکہ بلوچ قبائلی نظام کی قدیم اسٹرکچر کو تبدیلی کرکے ایک جاگیردارانہ فیوڈل قبائلی نظام متعارف کیا گیا بلکہ مختلف طریقہ سے بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی جب بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کے ان سارے ہتکھنڈے ناکام ہوگئے اور ان کے پاس4 کوئی دوسرا فارمولا نہیں بچا تو انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر بلوچ قوم کو غلام اور تابعدار بنانے کی کوشش کی لیکن وہ آخر میں ناکام ہوگئے اس قسم کے تضادات اور شوشاہوں نے اپنی آخری سانسیں لے کر زمانہ کے تھپیڑوں کے ساتھ دفن ہوگئے لیکن انگریزوں کے چلے
جانے کے بعد ایک دفعہ پھربلوچستان پر ریاستی تسلط کے بعد سے ایسے نعرے جو تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوئے تھے انہیں دوبارہ سے زندہ کرنے کوشش کی گئی ریاستی سرپرستی میں براہوئی اسٹوڈنٹ فیڈریشن بنائی گئی اور بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی اس سازش کو ایک دفعہ پھر بلوچ سماج میں متعارف کروانے کی کوشش کی گئی جس سے ایک نفرت اور نا اتفاقی کی فضإ پیدا ہوگئی اس کے لئے باقائدہ ریڈی میڈ لکھنے والے سرکاری ادیب پیدا کئے گئے براہوئی اکیڈمی بنایا گیا براہوئی سیمینارز کا انعقاد کیا گیا جو ایک سلسلہ کے ساتھ اب بھی جاری ہے کھبی مستونگ کھبی
قلات کھبی خضدار کھبی فرید آباد سندھ میں ہر سال ان کا انعقاد کیا جارہاہے براہوئی اکیڈمی بظاہر تو براہوئی اکیڈمی کے فرو غ کے لئے کام کرنے والے ادارہ کے طور پر سامنے آئی، لیکن وہ براہوئی زبان و ادب کی ترویج اور فروغ کی آڑ میں براہوئی کو ایک الگ قوم دکھانے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے اور بلوچ نام سے نفرت اور تعصب ان کا زاویہ نظر بن چکاہے منظور بلوچ کو یاد ہوگا کہ سوراب میں ایک دیوان میں ہمیں مدعوں کیا گیا تھا تو منظور بلوچ نے بلوچ گلوگار عظیم جان کو بھی اس پروگرام میں مدعو کیا تھا عظیم جان نے جب ماچکیں بلوچانی کو گایا تو اس پر براہوئی اکیڈمی والے سیخ پإ ہوگئے اور عظیم جان کو گانا گانے سے منع کیا جس سے شدید تلخی پیدا ہوئی یہ صرف ایک واقعہ نہیں ایسے کئی واقعات ہے جس میں تعصب کی ایک لاوا ہمہ وقت موجود ہوتاہے بلکہ ریاستی سرپرستی میں بعض براہوئی لکھنے والوں کو باقاعدہ یہ ٹھیکہ دیا گیا ہے کہ وہ براہوئی زبان کو بطور قوم ظاہر کرکے پروپیگنڈوں کی تشہیر کریں اور اس سوچ کو عام کریں کہ براہوئی ایک الگ قوم ہے ان کی اپنی الگ زبان و ثقافت اور جغرافیہ ہے اور اس طرح کے رجحانات رویوں کو براوئی زبان کی ترقی کی آڑمیں تقویت اور فروغ دیا جارہاہے بابونوروز خان اور ان کے جدوجہد کے حوالہ سے براہوئی اکیڈمی نے ایک کتاب شائع کیا ہے جسےزوق براہوئی نے لکھاہے۔ جس میں خان محراب خان سے لے کر بابو نوروز خان تک کو ایک براہوئی ریاست کے جدوجہد کے طور پر دکھایا گیا ہے اور پوری کتاب میں براہوئی حکومت براوستان براہوئی تاریخ براہوئی شناخت اور براہوئی کلچر کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں حالانکہ کٸ لکھنے والے براہوئی زبان بولنے والے کئی ادیب دانشور اور شاعروں نے ان کے مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈوں کی شدت کے ساتھ مخالفت کی ہے اور انہیں ملامت بھی کی ہے لیکن پھر بھی ایک قلیل اکثریت اس ایجنڈے پر سرگرمی سے کام کررہے ہیں اگر وہ2002سے قبل کی نسبت کمزور ہوچکے تھے لیکن طریقہ کا ر میں کچھ تبدیلی لاکر ان کے سرگرمیوں میں ایک تسلسل اب بھی موجود ہے اور ریاستی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے گزشتہ دنوں ایک دفعہ پھر براہوئی قومی اتحاد کے نام سے بننے والے ایک تنظیم کے زریعہ 5اپریل کو براہوئی کلچر ڈے منانے کا اعلان اس سازش کو ایک دفعہ پھر ابھارنے اور گھسیٹ کر زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ اعلان ایک منظم اور پلانٹڈ ایجنڈا کا حصہ ہے یہ نعرہ جو اپنی طبعی عمر کو پہنچی چکی ہے اسے وینٹی لیٹر پر رکھ کر جان دینے کی دوبارہ کوشش کی جارہی ہے
براہوئی زبان کو ایک قوم کی صورت میں لانا ایک تاریخی بے ایمانی اور غداری ہے ہزاروں سالوں سے رہنے والے بلوچ قوم کو اس نام پر تقسیم کرنے کی سعی لاحاصل کوشش نوآبادیاتی ایجنڈا کا حصہ ہے بلوچ تاریخ کو اس قسم کے سازش سے پاک کرنا ہماری قومی زمہ داری ہے ہماری تاریخ، کلچر ایک ہے ہماری زبان بھلے دو یا چار ہے اور اس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں دنیا میں کئی اقوام ہے جو کئی زبانیں بولتے ہیں جس میں روسی امریکن اور انگریز قوم کے علاوہ کئی مثالیں موجود ہے بلوچ قوم میں صرف براہوئی نہیں لاسی دہواری کھیترانی زبانیں بھی رائج ہے براہوئی زبان اور بلوچی زبان کی کئی لہجہ ہے مشرقی، مغربی بلوچستان میں بلوچی زبان میں بولنے کا لہجہ اور انداز الگ ہے لکھنے والے براہوئی قوم کے دعوی کرنے والے براہوئی زبان کو دراوڑی زبان یا تاملوں سے ملاتے ہیں دنیا میں ایسی کونسی زبان نہیں جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے نہ ہو ایک زبان کے الفاظ دوسرے زبان میں کیونکر نہیں ہوسکتے یا یہ کونسی انہونی یا چھونکا دینے والی بات ہے کہ ایک زبان کی دوسری زبان میں الفاظ نہ ملتے ہو عربی زبان میں آپ کو بلوچی کے لاتعدا الفاظ مل سکتے ہیں انگریزی میں براہوئی زبان کے کئی الفاظ ہے تو کیا براہوئی انگریز ہے یا انگریز براہوئی ہے یا بلوچ عرب ہے یا پھر عرب بلوچ ہے دراوڑی زبان توخود معدوم ہوگئی ہے اس کی
باقیات ہی نہیں ملتے گزشتہ دنوں براہوئی ٹی وی کے نام سی ایک انٹریو کیا جارہاتھا
انٹریو لینے والا ایک تامل باشندہ سے مخاطب تھا کہ (خن) آنکھ جو تامل بولنے والاتھا اسے (کن ) بول رہا تھا تو یہ بڑی خوش ہورہے تھے کہ یہ زبان تامل زبان ہے ابھی چند الفاظ کی مشترک ہونے سے ایک زبان کی اپنی انفرادیت کو مسخ نہیں کیا جاسکتا جب براہوئی زبان کے الفاظ کا بلوچی زبان میں الفاظ کو کمپیئر کیا جائے تو صرف چند الفاظ نہیں ہزاروں الفاظ ملتے ہیں لیکن یہاں بیچ میں سازش ہے اور انٹرویو لینے والا اس کا تقابلی جاٸزہ لینے کی تکلیف نہیں کریگی ایک صدی پہلے یا نصف صدی قریب براہوئی زبان بولنے والے اپنے باپ داداہوں کے صرف نام کا جائز ہ لیں کہ یہ سارے نام بلوچی میں ہیں دمگ اور علاقوں کے نام بلوچی ہے سندھ میں کافی بلوچ آباد ہے چانڈیہ تالپور کھوسہ لاشاری رند مزاری جتوئی بلیدی گشگوری اور کئی دیگر قبائل رہتے ہیں وہ سندھی بولتے ہیں تو کیا وہ سندھی ہوگئے؟
بلوچ لکھنے والے دانشور مورخ اور سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ اس سازش کو بے نقاب کرکے اس جعل سازی کو روکیں اور بلوچ تاریخ کے دامن کو اس تقسیم سے بچائیں یہ نورا کشتیاں بلوچ قوم کے ساتھ صدیوں سے ہوتا چلا آرہاہے اور یہ ٹریلر بلوچ قوم کو بار بار دکھایا جارہاہے یہ نوآبادیاتی تسلط کے لئے آکسیجن اور زندگی کے حربے کے طور پرہر بار سامنے لایا جارہاہے وقت اور عہد کے ساتھ یہ نورا کشتیاں بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کا مقصد اور خمیر ایک ہی ہوتاہے اور وہ بلوچ قوم کوغلامی اور تابعدار بنانے کی کوشش ، لیکن یہ صورتحال طویل عرصہ دیر برقرا ر نہیں رہ سکتا یہ اپنی توازن مصنوعی جھوٹ سے کھبی بھی برقرارنہیں رکھ سکتا تاریخ سچائی اور دیانت کے معیار کو نظریہ اور شعور کے پیمانے سے طے کرتی ہے یہ روایتی سچائیوں سے کئی زیادہ بلند اور دور رس ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز