Homeخبریںبلوچستان،اپریل میں87افرادجبری اغوا اور 28 قتل کیئے گئے

بلوچستان،اپریل میں87افرادجبری اغوا اور 28 قتل کیئے گئے

(ہمگام نیوز ) ہیومین رائٹس کونسل بلوچستان (ایچ آر سی بی) اور بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کیجانب سے اپریل 2018 کا رپورٹ مشترکہ تحقیق سے شائع کی گئی ہے جس میں جبری گمشدگی کے نو مزید کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جبری گمشدگی کے یہ 9 مزید کیسز مارچ میں رونما ہوئے ہیں، لیکن یہ اپریل میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
علیحدگی کی شورش کو روکنے کیلئےفوج 2004 سےبلوچستان میں انسداد بغاوت کی بے رحم آپریشنوں میں مصروف ہے۔ ہزاروں سیاسی کارکنان اور ہمدرد ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کے شکار کیئے گئے ۔
اپریل میں پاکستانی فوج نے بلوچستان کے مختلف حصوں سے 9 افراد کو قتل کیا۔ اسی ماہ کےدوران پہلے سے گمشدہ دو افراد کی لاشیں بھی برآمد ہوئے۔ گمشدہ افراد کے اہلخانہ فوج پہ الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کے پیاروں کی جبری گمشدگی میں فوج ملوث ہے۔
فوج کی آپریشن کے دوران چار افراد ہیلی کاپٹر کی شیلنگ سے قتل ہوئے، دو افراد کوموقع پہ پاکستانی فوج نے قتل کیئے جبکہ تین افراد کو فوج کی سہولت کار مسلح افراد نے ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کئے۔
ناز گل پانچ مہینے کی حاملہ خاتون تھی، جن کا تعلق بیسیمہ کے علاقے راگے سے تھی۔ناز گل کو پاکستانی فوج نے جبری گمشدہ کیا تھا، انہیں دسمبر 2017 سے غیر قانونی طور پر خفیہ قید خانوں میں رکھا گیا تھا۔ ناز گل دوران حراست فوت پا گئی۔ یہ خفیہ ٹارچر سیل فوج کے سہولت کار قبائلی سرداروں کے زیر اثر ہیں۔
دسمبر 2017 کو ایف سی نے 19 شہری بیسمہ کے علاقے راگے سے جبری اغوا کیے ،جن میں خواتین و بچے بھی شامل تھے۔ مغویان کو پہلے مشکے آرمی کیمپ منتقل کیاگیا تھا، لیکن بعد میں انھیں فوج کی سہولت کار قبائلی سردار علی حیدر محمد حسنی کے حوالے کیا گیا۔ علی حیدر نے تمام مغویان کو اپنے غیر قانونی قید خانوں میں یرغمال رکھا ہے۔
ناز گل محمد اقبال کو جب زبردستی حراست میں لیا گیا تھا تو اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ ناز گل6 اپریل 2018 کو وفات پاگئ اور وہ انکے جسم پہ حمل سے متعلقہ پیچیدگی کے علامات ظاہر تھے۔
علی حیدر کے محافظوں نے ناز گل اور دوسرے قیدیوں سے زبردستی گھریلو کام کروائےتھے۔ جب ناز گل حمل سے متعلقہ پیچیدگیوں میں مبتلا تھی تو علی حیدر کےمحافظوں نے ڈاکٹر بلانے سے انکار کیا تھا۔
ایک اور خاتون جن کا نام جمیلہ تھی، جو ضلع کیچ کے علاقے اوشاب کی رہائشی تھی کو نا معلوم مسلح افراد نے یکم اپریل 2018 کو قتل کیا۔ جمیلہ کی بچوں نے ویڈیوبیان میں کہا تھا کہ کچھ مسلح افراد جنکا چہرہ ڈھکا تھا گھر میں داخل ہوئے، انکی ماہ کو گھسیٹا اور پھر ان کو مار ڈالا۔
جمیلہ کے بھائی اقبال سوالی کی لاش بھی اسی دن سڑک کنارے برآمد ہوا۔ آذادی پسند مسلح تنظیم بلوچستان لیبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے اقبال سوالی کے قتل کی زمہداری قبول کی اور کہا کہ اقبال پہلے بی ایل ایف سے منسلک تھا، لیکن بعد میں فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
دریں اثناء مذہبی اقلیت کے 10 لوگوں کو مذہبی شدت پسندوں نے قتل کئے۔ اس خطےمیں شعیہ اور کرسچن مذہبی برادری پہ اکثر مذہبی شدت پسند حملہ کر تے ہیں۔
کرسچن خاندان کے 4 لوگوں کو یکم اپریل 2018 کو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں قتل کیا گیا تھا۔ کرسچن برادری کی یہ خاندان رکشے میں سوار کوئٹہ کے علاقےشاہ زمان روڑ سے گزر رہے تھے کہ اسی دوران موٹرسائیکل سوار مسلح افراد نے ان پہ گولی چلائی، جسکے باعث کرسچن خاندان کے تمام اراکین رکشہ ڈرائیور سمیت موقع پہ جانبحق ہوئے۔
14 اپریل 2018 کو مزید دو کرسچن برادری کے لوگوں کا قتل ہوا۔ ان پہ اس وقت حملہ ہوا جب وہ اتوار کو کوئٹہ کے علاقے عیسیٰ نگری سے عبادت کے بعد واپس اپنے گھر جارہے تھے۔
27 اپریل کو ہزارہ برادری کے دو اراکین کوئٹہ میں الیکٹرونکس کی دکان پہ مسلح افرادکی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ متاثرین میں محمد علی رضائی بھی شامل تھے جو شعیہ بلوچستان کانفرس کے بزرگ رکن تھے۔ ذرائع سے پتہ چلا کہ رضائی عموما ً اپنےمحافظوں کے ساتھ گھومتے تھے، لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے بعد انکے محافظوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔ 22 اپریل 2018 کو ہزارہ برادری کے دو مزید اراکین کو کوئٹہ میں ہلاک کیا گیا۔

Exit mobile version