لاہور (ہمگام نیوز)پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے چیئرپرسن حنا جیلانی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیزمیں بلوچستان سمیت پاکستان کے باقی حصوں میں جبری گمشدگیوں کی تازہ لہر کی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے
17 فرروی 2022 کو جاری ہونے والے پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو (ایچ آر سی پی) بلوچستان اور پاکستان کے باقی حصوں میں جبری گمشدگیوں کی تازہ لہر کی اطلاعات پر تشویش ہے۔ ان میں حال ہی میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پوسٹ گریجوایٹ کے طالبعلم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی بھی شامل ہے۔ مسٹر بلوچ کو مبینہ طور پر خضدار میں لاپتہ کیا گیا تھا، جہاں وہ ایک مقامی اسکول میں رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے۔ اطلاعات سے پتا چلا ہے کہ اُنہیں اُن کے شاگردوں کے سامنے اغوا کیا گیا۔ اِس شرمناک اقدام سے ظاہر ہوتا کہ کہ مجرموں کو سزا سے کس حد تک استثنیٰ حاصل ہے۔ مسٹر بلوچ کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے اور مجرموں کی نشاندہی کر کے اُن کا محاسبہ کیا جائے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا حکومت کا کیا گیا وعدہ بدستور کھوکھلا نظر آ رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالب علموں کو گزشتہ نومبر میں مبینہ طور پر لاپتہ کر دیا گیا تھا، لیکن یونیورسٹی میں طلبا کے طویل دھرنے کے بعد اُنہیں بازیاب کرائے جانے کی مبہم یقین دہانیوں سے بڑھ کر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
ایچ آر سی پی صوبے میں جبری گمشدگیوں پر پائی جانے والی خاموشی کے تسلسل پر خاص طور پر فکر مند ہے، جسے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ دیدہ دانستہ نظرانداز کر رہے ہیں۔ ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ وہ بلوچ عوام کی جائز شکایات کے حل کی توقع نہیں رکھ سکتی اگر وہ ان شکایات کوعوام کی نظروں میں آنے کی اجازت نہیں دے گی۔