شنبه, نوومبر 23, 2024
Homeخبریںبلوچستان میں پاکستانی فوج کے جبر سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کر...

بلوچستان میں پاکستانی فوج کے جبر سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں- بی این ایم

شال ( ہمگام نیوز ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستانی فوج کی جبر کی وجہ سے بلوچستان میں لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔خاران میں عجاب یلانزھی کے بھائی لطف اللہ یلانزھی اور ان کی اہلیہ کی خودکشی ریاستی جبر کا نتیجہ ہے۔یہ خودکشی کے واقعات نہیں بلکہ یہ قتل ہیں۔بلوچستان میں پاکستانی فورسز لوگوں کوخودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور کر رہی ہیں۔رواں سال اب تک چار افراد نے فوجی تشدد کے نتیجے میں خودکشیاں کی ہیں۔

 

انھوں نے کہا 23 اکتوبر کو سی ٹی ڈی کے ہاتھوں عجاب یلانزھی کی جبری گمشدگی اور ان کے ماموں شفقت یلانزھی کی ریٹائر جسٹس مسکان نور زھی کے قتل کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتاری کے باوجود پاکستانی فورسز مسلسل عجاب یلانزھی کے گھر پر چھاپے مار رہی تھیں۔چادر و چاردیواری کی پامالی کے ساتھ گھر والوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا تھا۔جس سے تنگ آکر نوجوان لطف اللہ یلانزھی کی اہلیہ نے خودکشی کرلی جس پر ان کے غمزدہ شوہر نے بھی اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

 

بی این ایم کے ترجمان نے کہا اس سے قبل کیچ کے علاقے سرنکن میں چاکر مجید نے پاکستانی فوج کے دباؤ کے نتیجے میں خودکشی کا راستہ اختیار کیا تھا۔

 

انھوں نے کہا تین سال قبل مارچ دوہزار انیس کو پاکستانی فورسز نے سرنکن میں چھاپہ مارکر چاکرکو حراست میں لے کر دس مہینوں تک جبری لاپتہ رکھ کرشدیدذہنی وجسمانی تشددکے بعد رہا کر دیا تھا۔رہائی کے بعد بھی فوج نے انھیں چین سے رہنے نہ دیا بلکہ پاکستانی فوج چاکرمجید کو مسلسل کیمپ بلاتی رہی اور ان پر بلوچ جہدکاروں کے خلاف کام کرنے کے لیے دباؤ ڈالتی رہی ۔مگرچاکرفوج کے لیے کام کو کرنے سے خودکشی کو ترجیح دیا۔

 

 

ترجمان نے کہا کہ چاکرمجید نے اپنی جان اس وقت لی جب فوج نے انھیں کیمپ بلاکر موبائل چھین لی او راپنی طرف سے ایک موبائل بمع سم اور ایک جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والا ڈایوائس دیا تاکہ ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاسکے لیکن انھوں نے فوج کے لیے بطور جاسوس استعمال ہونے کی بجائے المناک موت کو گلے لگایا۔

 

’ 30 اگست 2022 ( رواں سال) کو مہیم ولد آسمی نے بھی خودکشی کی تھی جنھیں مارچ 2014 کو پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا تھا۔ تشدد سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بری طرح گر چکی تھی جس نے انھیں بالآخر زندگی سے مایوس کردیا۔ٹارچرسیلز میں پاکستانی فوج قیدیوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے اس کے بعد متاثرین کو بحال ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں جبکہ بہت سے افراد مناسب سہولیات اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات سے زندگی بھر نہیں نکل پاتے جن کو خودکشی اس اذیت سے نجات پانے کا واحد راستہ معلوم ہوتا ہے۔‘

 

انھوں نے کہا بلوچستان میں خودکشی کا رجحان خطرناک سطح تک بڑھ کر ایک سماجی مسئلے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔بلوچستان پولیس کے مطابق گذشتہ سال 80 افراد نے خودکشی کی تھی جبکہ رواں سال میڈیا رکارڈ کے مطابق اب تک 14 افراد نے خودکشی کی ہے جو مجموعی تعداد کی محض ایک چوتھائی ہے۔غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال بلوچستان میں 56 افراد نے خودکشی کی ہے جن میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات مکران ڈویژن کے ضلع کیچ میں پیش آئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حالات ، پاکستانی فوج کے جبر اور بلوچستان میں پاکستانی فوج کی کٹھ پتلی حکومت کی سماجی معاملات میں عدم دلچسپی نے لوگوں کو مایوس کردیا ہے جس کے نتیجے میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔خودکشی کرنے والے بیشتر افراد نوجوان ہیں جبکہ خواتین بھی بڑی تعداد میں خودکشیاں کر رہی ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز