آج رات جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں بارہ پر پہنچیں گی، تاریخ بدل جائے گی اور 18 مارچ 2025 کا سورج طلوع ہوگا۔ تو ایک درد ناک دن کا ابتداء ہوگا۔ یہ وہی دن ہے جب تین سال پہلے، 18 مارچ 2022 کو، میرے کزن شہید صبغت اللہ بلوچ کو پنجگور کی تحصیل پروم میں فرنٹیئر کور نے بے گناہ فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ آج ان کے ماورائے عدالت قتل کو تین برس بیت چکے ہیں، مگر قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، کیونکہ ریاست انہیں اپنا محافظ سمجھتی ہے اور ان کے جرائم پر پردہ ڈالتی ہے۔
لیکن یہ صرف صبغت اللہ بلوچ کی کہانی نہیں، یہ بلوچستان میں جاری اس ظلم اور ناانصافی کی داستان کا ایک اور باب ہے، جس میں ہزاروں بے گناہ بلوچوں کے خون سے صفحے رنگے جا چکے ہیں۔ یہاں ہر گلی، ہر قریہ، ہر گھر میں ایک صبغت اللہ ہے—کوئی جبری لاپتا، کوئی ماورائے عدالت قتل کا شکار، اور کوئی اپنوں کی راہ تکتے تکتے قبر میں جا سویا۔ یہاں انصاف ایک نایاب خواب بن چکا ہے، جسے دیکھنا بھی اب جرم لگتا ہے۔
میرے کزن کا کوئی جرم نہیں تھا۔ وہ نہ کسی تنظیم سے وابستہ تھے، نہ ریاست کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث تھے۔ ان کا واحد ‘قصور’ یہ تھا کہ وہ بلوچ تھے، بلوچستان میں رہتے تھے اور بلوچی بولتے تھے—اور شاید یہی چیز ریاست کو ناقابلِ برداشت تھی۔ کیا بلوچ ہونا واقعی اتنا بڑا جرم ہے؟
ریاست اگر اپنی طاقت کے نشے میں یہی روش برقرار رکھتی ہے، تو اسے سنگین نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ آج بلوچستان میں جو حالات ہیں، وہ کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ ریاست کی اپنی پالیسیوں کا شاخسانہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست چاہتی ہے کہ یہاں بدامنی رہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ فنڈز حاصل کیے جا سکیں، وسائل لوٹے جا سکیں، اور ظلم کا بازار گرم رکھا جا سکے۔ یہ سب کچھ بلوچوں کے خون سے وہ محل تعمیر کرنے کے لیے ہو رہا ہے، جن میں حکمران عیش کریں گے اور مظلوموں کی آہیں دیواروں میں گونجتی رہیں گی۔
لیکن کیا یہ ظلم ہمیشہ رہے گا؟ کیا قاتل ہمیشہ دندناتے پھریں گے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ہم اس ناانصافی کو بے نقاب کرتے رہیں گے، ہم شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے۔
اور آخر میں تمام دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ رمضان کے اس بابرکت مہینے میں شہداء کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ شہید صبغت اللہ الیاس بلوچ اور بلوچستان کے تمام شہداء کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین!