ڈھاکہ (ہمگام نیوز) بنگلہ دیش کو کئی برسوں کے بعد ڈینگی کے بدترین پھیلاؤ کا سامنا ہے جس میں 400 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور مون سون کی طوالت کے باعث انفیکشنز میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے بالخصوص شہری علاقوں کے ہسپتالوں کو جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں اس مرض سے کم از کم 407 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 78,595 مریض ملک کے طول و عرض میں ہسپتالوں میں داخل ہیں۔

نومبر کے وسط تک 4,173 مریضوں کا علاج جاری تھا جن میں سے 1,835 کا دارالحکومت ڈھاکہ میں اور 2,338 دیگر جگہوں پر علاج کیا گیا۔

جہانگیر نگر یونیورسٹی کے حیوانیات کے پروفیسر کبیر البشر نے کہا، “ہم اکتوبر میں بھی مون سون جیسی بارشیں دیکھ رہے ہیں جو غیر معمولی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بدلتے موسمی نمونوں سے ایڈیس ایجپٹائی مچھر کی افزائش کے لیے بہترین حالات پیدا ہوئے جو بیماری کا بنیادی محرک ہے۔

“موسم میں یہ تبدیلیاں مچھروں کی افزائش کے لیے مثالی حالات کو فروغ دے رہی ہیں۔”

شہروں میں گنجان آباد علاقے بیماری کے مزید پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں جو عموماً جون سے ستمبر تک مون سون کے موسم میں زیادہ عام ہوتی ہے حالانکہ اس سال یہ اس کے بعد بھی جاری ہے۔

بشر نے اس بیماری کی نگرانی اور انسداد کے لیے بنگلہ دیش میں پورا سال بیماری پھیلانے والے حشرات کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور ان کے تجزیئے کا مطالبہ کیا۔

معروف معالج ڈاکٹر اے بی ایم عبداللہ نے کہا، “جلد تشخیص اور احتیاط ڈینگی پر قابو پانے کی کلید ہے۔” اس سے اموات کو ایک فیصد سے بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ سال موجودہ بحران کے حوالے سے مہلک ترین تھا جب 1,705 اموات اور 321,000 سے زیادہ انفیکشن رپورٹ ہوئے۔

چونکہ ہسپتال ہزاروں مریضوں کے علاج کے لیے کوشاں ہیں تو نظامِ صحت زیادہ مشکلات کا شکار ہو رہا ہے جو موجودہ ملکی حالات کے باعث پہلے ہی مخدوش ہے۔

صحت کے حکام نے مچھروں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر زور دیا ہے مثلاً مچھر بھگاؤ لوشن اور چارپائیوں پر جالی کا استعمال۔ ماہرین ٹھہرے ہوئے پانی کو ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات چاہتے ہیں جہاں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ علاج میں تاخیر زیادہ پیچیدگی اور اموات کا سبب بن رہی ہے بالخصوص دیہی آبادیوں میں جنہیں ڈھاکہ میں خصوصی سہولیات کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔

اس بیماری کی اکثر صرف ہلکی ابتدائی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو تشخیص میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں اور تب تک مریض کی حلات نازک ہو جاتی ہے۔