دوشنبه, نوومبر 25, 2024
Homeخبریںبھاگ، پانی کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا

بھاگ، پانی کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر گیا

بھاگ(ہمگام نیوز)بھاگ شہرمیں پینے کے پانی کا مسلہ سنگین صورتحال اختیارکرگیاہے بھاگ شہر کے مین تالاب کا جوپانی ہے وہ مکمل ختم ہونے کے قریب ہے پانی کا رنگ بھی پیلا ہوچکاہے جوپانی بھاگ شہری استعمال کررہے ہیں وہ مضر صحت پانی ہے پانی کے استعمال سے مختلف قسم کی بیماریاں جنم لے رہے ہیں جس میں پیٹ،یرقان سمیت دیگر بیماریاں شامل ہیں اتنے بڑے شہر میں تمام تر حکومتی دعوے پانی کے حوالے سے بلکل نہ ہونے کے برابر ہے حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے لوگ پینے کے پانی کے حوالے سے شدید پریشانی اور قرب میں مبتلا ہوچکے ہیں حالانکہ بھاگ کے شہریوں نے پینے کے پانی کی عدم فراہمی اورمحکمہ پی ایچ ای کے آفیسران کی نااہلی کیخلاف جمہوری طریقے سے احتجاج کے تمام ترذرائع بھی استعمال کئیے ہیں حکومتی عمل درآمدگی بھی بلکل کمزور پڑچکی ہے محکمہ پی ایچ ای کے آفیسران اتنے طاقتور اور بااثر ہوچکے ہیں کہ وہ بھاگ شہر کو پانی کی فراہمی میں لیت ولعل سے کام لے رہے ہیں بھاگ شہر جوکہ ایک قدیمی اور تاریخی حیثیت رکھتاہے بھاگ شہر کو پانی کی عدم فراہمی میں محکمہ پی ایچ ای برابر کے شریک ہیں کیونکہ متعلقہ محکمہ پر رٹ کمزور پڑجانے کی وجہ سے متعلقہ محکمہ کے آفیسران غیر ذمہ دار اورسب کچھ ٹھیک ہے کاراگ الانپتے ہیں اور اپنے سے اعلی حکام کو غلط بریفنگ غلط گائیڈ لائن دے کے یہ کہاجاتاہے کہ بھاگ شہر میں پانی کا کوئی مسلہ نہیں حالانکہ اس وقت بھاگ شہر سمیت پورے علاقہ کے ہزاروں،دیہاتوں،گاں،بستیوں کے عوام کا تمام تر انحصار بھی بھاگ شہر کے اس کچے تالاب پر ہے یہ امر باعث افسوس ہے کہ بھاگ شہر کے پینے کے پانی کے حوالے سے تین بڑے میگا پراجیکٹ (پائپ لائن)بھی شہر کو پانی فراہم نہیں کرسکے ہیں ڈیرہ مراد جمالی سے کچھی واٹر سپلائی پلین اسکیم پر جوکہ کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں ڈیرہ مراد جمالی سے لیکر بھاگ شہر تک اسی پائپ لائن پر معمور درجنوں ملازمین،آفیسران کے بھی قول وفعل میں تضادہے نہ ہی وہ خوف خدا ان کے دل میں ہے اور نہ ہی حکومتی گرفت ان پرہے وہ اتنے خود غرض ہوچکے ہیں کہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کیساتھ ساتھ ہرماہ لاکھوں روپے کی مدمیں،ٹی اے ڈی اے،پیر ولنگ کی مد میں فیول نکالنے،پائپ لائن کی مرمت سمیت دیگر کام میں خرچ ہورہے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کوئی بالاآفیسر،یا کوئی حکومتی اہلکاروں کا دورہ اس پائپ لائن کے مطلق ہوتاہے تو متعلقہ پائپ لائن پر معمور آفیسران اور عملہ ہنگامی بنیادوں پر صرف اسی دن پائپ لائن کے ذریعے پانی فراہم کرکے پانی کو اسٹور کرنے والے ٹینکوں میں پانی جمع کردیتے ہیں پھر یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہاں پر پانی جمع ہیں لوگ ناجائز باتیں کرتے ہیں اور جونہی دورہ کے ایک دن یا دودن بعد فورا پانی کی کئی ماہ بندہوجاتاہے قیامت خیز گرمی کی شردعات ہوں یا پھر،سردی ہوپانی کی شدید قلت کی وجہ سے عوام نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اس مہذب معاشرے میں جو پانی بھاگ شہر کے عوام پی رہے ہیں اگر حقیقت میں دیکھاجائے تو وہ انسانیت کیلئے لمحہ فکریہ ہے اس کے علاوہ سنی واٹر سپلائی اسکیم گذشتہ تقریبا اٹھارہ سالوں سے مکمل بند پڑاہے اس پائپ لائن پر بھی کروڑوں روپے خرچ کیساتھ ساتھ آفیسران،عملہ باقاعدگی کیساتھ تنخواہ وصول کررہے ہیں اور تاحال تمام تر مراعات سے بھی مستفید ہورہے ہیں آفیسران کو تیل کی مد میں تمام تر سہولیات ٹی اے ڈی اے تنخواہ مل رہاہے اس کے علاوہ بھاگ شہر میں کروڑوں روپے روپے کے خطیر رقم سے تعمیر کئے گئے پانی کو اسٹور کرنے والے ٹینک بھی بوسیدہ ہوچکے ہیں کیونکہ اس تقریبا اٹھارہ سال کے طویل عرصہ میں آفیسران اور عملہ کواتنی تسلی ہوگی کہ آفیسران اور عملہ اپنے پرائیوٹ کاروبار شروع کردی ہیں کاروبار کیساتھ ساتھ تنخواہ بھی باقاعدگی کیساتھ چلے آرہے ہیں حالانکہ واٹر سپلائی کے ٹینکوں کیلئے بجلی کا جونظام تھا وہ بھی مفلوج ہوکر رہ گیاہے بجلی کے ٹرانسفارمرز بھی غائب کردئے گئے ہیں پانی کو فلٹر کرنے والے جدید اور قیمتی مشینری کے کئی پرزے غائب اور زنگ آلودہ ہوچکے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی کسی کو اس حوالے سے کوئی خوف وخطرہ بھی ہے اور نہ ہی کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی ہے اگر بھاگ شہر اوراس کے گردونواح کو تھر سے اس کی مشابہت کی جائے تو کم نہ ہوگا حال اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ لوگ نقل مکانی کرکے اپنے آباو اجداد کے شہروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں آخر وہ کوسنے عوامل کارفرما ہیں کہ بھاگ شہر کو پانی فراہم نہیں کیاجارہاہیہ بھاگ کے عوامی سماجی حلقوں نے انسانی حقوق تنظیموں،حکام بالا وزیراعلی بلوچستان،چیف سیکرٹری،بلوچستان سمیت دیگر اداروں کے سربراہان سے پرزور مطالبہ کیاکہ وہ بھاگ شہر کو پانی کی فراہمی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قدیمی اور تاریخی شہرکو ویران اور غیرآباد ہونے سے بچایاجائے تاکہ لاکھوں کی انسانی آبادی نقل مکانی کرنے سے بچ جائیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز