Homeآرٹیکلزبیاناتی کلاکاریاں

بیاناتی کلاکاریاں

 

تحریر:بیورغ بلوچ

ہمگام کالم:

بلوچ سیاست و مزاحمت کے حالیہ چند ادوار کو دیکھا جائے اُس پر تجزیہ کیا جائے تو بیس سالہ اس رواں جدوجہد کے دوران جب سے اداروں کی تقدس کی پامالیت کے بعد جس طرح شخصی اجارہ داریاں قائم کرکے ما بعد بیانی کلاکاریوں کے زریعے اپنا وجود برقرار رکھنا روز مرہ کامعمول بن چکا ہے ۔

مرزا غالب کے زمانے میں سیاسی سرکس تو ناپید تھا البتہ انگریز بہادر کے آمرانہ جوکر روز کوئی نہ کوئی نیا کھیل دکھاتے رہتے تھے۔ مرزا غالب ایک ماہر ادبی کھلاڑی تھے انہوں نے ولایتی کلاکاری کو ایک دیسی مصرعے میں یوں سدا بہار بنا دیا تھا۔ …. ”ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے”

یہی وہ تماشے ہیں جس سے بلوچ قومی تحریک کے اندر صرف وقتی صورت میں زندہ رہنے کی تاویلیں تلاش کی جارہی ہیں، گزشتہ دنوں ایک ویب سائٹ سے ایک ناول نما Fiction پڑھنے کو ملا جس میں چند قوتوں کی خودساختہ خدائی کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف مندریں، مسجدیں اور گرجا گھر  تعمیر کئے جارہے  تھے جہاں اندھی تقلید کے ساتھ ساتھ جذباتی بنیاد پر عام افراد کے احساسات سے کھیل کر انہیں اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھانے کے لئے نت نئے حربے کارمرز کئے جارہے تھے ، بشیر زیب کی خودساختہ سربراہی بی ایل اے اور ڈاکٹر اللہ نظر کی سربراہیِ بی ایل ایف یہ وہی قصہِ داستان ہیں جن کا سِرا اداروں کی تقدس کی پامالی تک جا ملتا ہے، جس طرح جناب ڈاکٹر نظر نے بندوق کے زور پر کچھ سیاسی کیڈرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی اُسی طرح مائینس حیربیار کا Formula استعمال کرکے جناب بشیرزیب بی ایل اے کا خودساختہ سربراہ بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.

یہ لوگ جس انداز سے سنگت حیربیار کے خلاف محاذ کھولے مورچہ زن ہیں اُس سے یہ ضرور ہے کہ شیر کی قلابازیاں بازیچہ اطفال ثابت ہوتی ہیں اور سرکسی تیراندازی میں تیر اپنے ہدف پر لگتا ضرور دکھائی دیتا ہے مگر اسے کسی طرح کا نقصان ہر گز نہیں پہنچاتا. بالکل اسی طرح وقتی صورت میں یہ حضراتِ انقلاب اپنے خود ساختہ وجود پر فخر کررہے ہیں لیکن پائیدار سیاسی عمل اور مستقبل کی international رسہ کشی پر ان کے وجود اس ہوا کے جھونکے کی مانند ہے جو لمحہ بھر رفو چکر ہوجاتا ہے لیکن اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا، لیکن دوسری جانب سنگت حیربیار کا پائیدار سیاسی عمل، سیاسی بصیرت Long Term اندازِ سیاست یہ ثابت کرتا ہے کہ اُن میں لیڈرشپ کی Abilities ہیں حقیقی لیڈر شپ کی نشانی ہے کہ وہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ Political Mobilisation اس کا سلسلہ نا رک پائے سیاسی بصیرت کے ساتھ عام کارکن کی سیاسی تربیت اور انہیں اس قابل بنانے کے لئے انہیں وہ حوصلہ فراہم کرنا کہ آگے جاکر وہ لیڈر بن پائیں یا قیادت کے اہل ہوپائیں، گو کہ جذبات کے سہارے یہ سیاسی کلاکار سنگت حیربیار کو تنہا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پائیدار عمل میں تنہائی ان سیاسی قوتوں کا مقدر ہے۔

اس مرتبہ “براس” کو لیکر یہ حضراتِ انقلاب سیاسی قلابازیوں اور بیاناتی کلاکاریوں میں سب سے بازی لے گئے ہیں لفظ ’کلا‘ ہنرمندی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اسکے مجموعی معنی فریب یا چکر بازی کے ہوتے ہیں، قلابازی بھی درحقیقت چکر بازی ہی ہوتی ہے، کلا کے لفظ پر تشدید ڈال دی جائے تو یہ لفظ گال یا جبڑے کے معنی دینے لگتا ہے جبڑے کو ماہرانہ کلاکاری سے چلایا جائے تو کلاباز بہت سی الجھنوں سے بچ سکتا ہے یہی وہ وقتی سیاسی الجھنیں ہیں جن سے یہ حضرات بچ رہے ہیں لیکن مستقبل کے پائیدار سیاسی عمل میں ان کلاکاریوں اور سیاسی قلابازیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں اس لئے سب سے بہتر عمل یہی ہے کہ دیر یا جلد یہ نادان دوست اپنے اعمال کا جائزہ لیکر اپنی موجودہ سیاسی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرکے ایک مضبوط سیاسی عمل کی تشکیل کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کریں وگرنہ نا وہ خود بچ پائیں گے اور نا ہی تحریک کو بچا پائیں گے.

Exit mobile version