شال ( ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ شال زون کی جانب سے “سیاست اور سیاسی روایات” کے عنوان پر ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا، جس میں بی ایس ایف شال زون کے صدر حکمت قمبر اور مرکزی کمیٹی کے رکن گل حسن بلوچ نے موضوع بالا پر سیر حاصل گفتگو کی۔
بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ شال زون نے گزشتہ روز 31 مارچ بروز جمعہ، جامعہ بلوچستان میں ایک اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا۔ جس میں مختلف ساتھیوں نے حصہ لیکر تفصیلی گفتگو رکھی۔ مزید برآں، اس میں سوال جواب کا بھی سیشن رکھا گیا۔ جس میں ساتھیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ساتھیوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست ان اصطلاحات اور کونسپٹس میں سے ایک ہے جس کی اب تک کوئی متفقہ تعریف نہیں کیونکہ سیاست کو کئی پیراڈائم سے دیکھا کیا گیا ہے۔ ہر پیراڈائم اور زاویہ فکر سے منسلک حامیوں نے سیاست کی ایک الگ معنی پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سے سیاست کا تصور ہمیشہ contested رہا ہے۔ تاہم، تمام زاویہ افکار میں کچھ چیزیں مشترک ہیں۔ جن کی بنیاد پر ہم سیاست کو سمجھ سکتے ہیں۔
مثلاً سیاسی آئیڈیلزم سیاست کو سماجی اخلاقی عمل کہتا ہے جس کا مقصد کچھ مخصوص اقدار کے حصولی اور تحفظ ہے اور ایک اچھا مثالی سماج قائم کرنا ہے۔ جبکہ سیاسی ریئل ازم اس کو ایک ایسا سماجی عمل قرار دیتا ہے جس کا مقصد پاور حاصل کرنا ہے۔ یعنی طاقت، تشدد اور جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد کی حصولی یا اقدار کے نفاز کے عمل کو سیاسی رئیل ازم کے حامیوں نے سیاست کا نام دیا ہے۔ تاہم، پریگمیٹک pragmatic یا realpolitik کے حامی سمجھتے ہیں کہ سیاست سماجی عمل ہے اور سماجی عمل میں چند خاطر خواہ مقاصد کو مختلف حکمت عملیوں کے زریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی یہ زاویہ فکر سیاست کو کچھ مقاصد، اہداف اور حکمت عملی تک محدود کرتا ہے اور اخلاقی یا نظریاتی سیاست کو نہیں مانتا۔ تاہم، آخری زاویہ فکر نظریاتی سیاست ہے جو کہ ان تمام روایات سے بالکل الگ ہے۔ نظریاتی سیاست پر یقین رکھنے والے بھی سیاست کو ایک سماجی عمل گردانتے ہیں لیکن یہ طبقہ فکر موجودہ نظام اور اسٹیٹ سے خوش نہیں ہوتے۔ اس لیئے، یہ اصلاحات یا ایک الگ آئیڈیل نظام قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور وہ اس کوشش یا عمل کو سیاست کا نام دیتے ہیں۔ وہ سیاست کو ایک وسیلہ، ہتھیار یا محاز کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول میں تگ و دود کرتے ہیں۔ ان تمام زاویہ افکار میں کچھ چیزیں مشترک ہیں جیسے کہ سماجی عمل، تنازعات کے حل اور ایک اچھا سماج کا قیام وغیرہ شامل ہے۔
ساتھیوں نے مزید کہا کہ کہ جب سے ریاستیں معرض وجود میں آئی ہیں۔ تب سے انسان نہ صرف ایک سماجی بلکہ ایک سیاسی حیوان بن چکا ہے۔ جب انسان سماجی اور سیاسی حیوان بنا تو ان کے درمیان مختلف نوعیت اور شدت کے اختلافات اور تنازعات نے بھی جنم لی۔ تاہم، تہذیبی ارتقاء نے انسان کو سکھایا کہ ان تنازعات کو مل بیٹھ کر ڈائیلاگ، ٹیبل ٹاک اور کچھ دو، کچھ لو کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے۔ جب اس نے یہ عمل شروع کیا تو وہ سیاسی عمل سے جڑتا رہا اور سیاست کا تصور وسیع ہوتا گیا۔ جس سے سماج کے اندر تنازعات اور اختلافات کو حل کرنے کا فارمولا اور راستہ مل گیا۔ ان اختلافات کو حل کرکے انسان نے اتفاق، ہم آہنگی، بھائی چارہ اور امن کو اپنی ضرورت اور مقصد بنا لیا۔
اس کے علاوہ، ساتھیوں نے سیاست کے متعلق مختلف سیاسی اپروچز، سیاسی رویوں جیسے کہ ریڈکلز، موڈریٹ، کنزرویٹو، ریکشنری وغیرہ اور سیاست کے مختلف سطحوں یعنی کہ micro politics اور macro-politics پر بھی جامع اور تفصیلی گفتکو کی، جس سے سیاست کے کئی پہلو روشن اور واضح ہوتے گئے۔
آخر میں شال زون کے صدر نے تمام ساتھیوں کو اپنے مطالعہ اور سیاسی تعلیم و تربیت اور قومی شعور کو پروان چڑھانے پر توجہ دینے اور محنت کرنے کی تلقین کی اور کیڈرسازی کے عمل کو تیز کرنے کا بھی کہا۔ اس کے علاوہ، آئندہ کے سرکل کیلئے بھی ٹاپک کا انتخاب کیا گیا اور ساتھیوں کو بھرپور تیاری کی گزارش کی۔