شنبه, فبروري 1, 2025
Homeخبریںبی ایل اے کی چھاپہ مار جنگی حکمت عملیوں کا کامیاب آغاز۔...

بی ایل اے کی چھاپہ مار جنگی حکمت عملیوں کا کامیاب آغاز۔ ہمگام ٹیم

ہرطرف چین ہی چین تھا، سب گھوڑے بیچ کر سو رہےتھے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ کوئی تنظیم کمر توڈ انحرافی بحرانوں سے گزرتے ہوئے اس طرح کی کایا پلٹ یا کم بیک کرسکتی ہے۔

تاہم، انتظامی ضابطوں کی مضبوطی، لیڈرشپ کی خلوص، یکسر جنگی حکمت عملیوں، بنیادی چھاپہ مار جنگی اصولوں کی وجہ سے اور انتظار کی جان کن لمحات کو دیدہ دلیری و خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کے بعد بی ایل اے منگوچر میں قابض پاکستانی آرمی پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔

بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے منگچر قلات کے علاقے کو مکمل اپنے کنٹرول میں لینے بعد وہاں سے ابتدائی اطلاعات آنے تک قابض آرمی کے سترہ اہلکاروں کو ہلاک کردیا گیا، جو کہ خالص چھاپہ مار جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔ اسکے بعد اسنیپ چیکنگ کے دوران اسی رستے سے آنے والے پاکستانی فوج کے ایک قافلے سے مڈبھیڑ کے دوران انیس پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کیا گیا، پہلے سے اپنے پوزیشنوں پر موجود گوریلہ جنگجوؤں کو معرکے کے دوران پاکستانی قابض آرمی پر واضح برتری رہی اور وہ اس گھات لگائی حملے سے کسی بھی صورت سنبھل نہ سکے، جس سے یہ بات روز روشن کی مانند عیاں ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی پاکستانی جبر و استبداد اور عام بلوچ پر ہونے والی ظلم و ستم کے باوجود بی ایل اے نے چھاپہ مار جنگی حکمت عملیوں پر جذبات کو حاوی ہونے نہیں دیا بلکہ بلوچ راجی لشکر نے اپنے ماضی کی چھاپہ مار روایات سے ایک اِنچ ہٹے بغیر ایک طویل انتظار اور بہترین عسکری حکمت عملیوں کی بدولت سے منگوچر قلات کے اندر نہ صرف پاکستانی قابض آرمی کو ناکوں چنے چبوائے بلکہ عسکری اور جنگی اعتبار سے اس آپریشن کے دوران بی ایل اے نے پاکستانی قابض آرمی کو مکمل ناک آؤٹ کرکے رکھ دیا ہے، سڑکیں مکمل طور بلوچ لبریشن آرمی کی حفاظتی حصار میں رہے اور اس مشق کے دوران آپریشنل انتظامی پولیس کی طرح بی ایل اے کے سرمچار مختلف سڑکوں پر لگے ناکوں پر آنے جانے والے گاڈیوں کی تلاشی لیتے رہے۔

بی ایل اے نے اس چھاپہ مار طرز آپریشن میں قلات کے تقریباً تمام علاقوں اور شاہراؤں کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئے یہ امر یقینی بنایا کہ علاقے میں موجود قابض پاکستانی فوج اور اسکی پناہ گاہوں تک قرب و جوار میں موجود دیگر پاکستانی فوج کے کیمپوں سے تازہ دم دستے کسی بھی صورت زمینی رستے سے معرکے کے میدان تک نہ پہنچ پائیں۔

اسکے بعد خبر آئی کہ پاکستانی قابض آرمی نے ڈرون، ہیلی کاپٹرز سمیت بکتر بند و دیگر بڑے عسکری ہتھیاروں کی مدد سے بلوچ لشکر کے خلاف اپنی جارحیت کو آگے بڑھانے اور بلوچ لشکر سے علاقائی کنٹرول چھینے کی کوششیں شروع کی لیکن بہتر چھاپہ مار جنگی حکمت عملیوں کی بنیاد پر اور پہلے سے بہتر جنگی منصوبہ بندیوں کی وجہ سے پاکستانی فورسز اپنے فضائی امداد و بمبارڈمنٹ و شیلینگ کے باوجود نہ صرف منگچر میں بلوچ لبریشن آرمی کی کنٹرول کو ختم نہ کرسکے بلکہ وہ اپنی طاقت کی بھرپور استعمال کے باوجود بلوچ راجی لشکر کے کسی ایک گوریلہ جنگجو کو نقصان تک نہ پہنچا سکے۔

تاحال ایسی کوئی بھی خبر نہیں آئی کہ خدانخواستہ اس بڑے معرکے میں بلوچ لبریشن آرمی کی کا کوئی جانباز ساتھی کو نقصان پہنچا ہے گو کہ یہ جنگی عمل کا حصہ ہے کہ دشمن کے ساتھ لڑائی کے دوران نقصان کا احتمال بہرحال موجود رہتا ہے، کیونکہ دونوں اطراف سے مسلح جنگ لڑی جارہی ہے لیکن اس میں چھاپہ مار جنگ کے دوران اور اس سے پہلے بی ایل اے کی جنگی رفتار سے زیادہ دشمن پر نفسیاتی ضرب لگانے کی کوششیں ماضی سے لیکر تاحال برقرار ہیں۔ جہاں دشمن کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے اسکی پناہ گاہوں میں گُھس کر اسے مارنے کے بعد بحفاظت اور بغیر کسی بڑی نقصان کے نکل جانا بذات خود دشمن کو سراسیمہ بنا دیتا ہے اور چھاپہ مار جنگی حکمت عملی کے کامیابیوں کے جھنڈے دشمن کی نفسیات میں گھاڈ دیتا ہے، کیونکہ دشمن جو تمہارے لیئے تصورات بنا چکا ہے، دشمن نے تمہاری طاقت کے حوالے سے جو اندازے لگا رکھے ہیں اور جو دشمن کا طاقت کے توازن کو لے کر ایک سوچ اور یقین برقرار ہے۔ اس سوچ، یقین، تصور اور اندازے کا یکسر ملیامیٹ ہوجانا دشمن کے اوسان کو خطا کردیتا ہے جسکی وجہ سے دشمن آنے والے کئی عرصے تک اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہتا کہ وہ تمہارے اور تمہاری موجود قوت کے بارے میں نہ صرف رائے رکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے بارے سب کچھ جانتا ہے اور مکمل حساب بھی رکھتا ہے اس تصور کا ملیامیٹ ہونا اور دشمن پر یہ راز کھلنا کہ چھاپہ مار جنگی طاقت جو اندازہ وہ لگارہے تھے وہ یکسر غلط تھے،
تو اس سے دشمن اپنی تصورات و جنگی منصوبہ بندیوں سمیت اپنی حکمت عملیوں پر از سر نو غور کرتے ہوئے مزید چوکس رہنے کی کوشش کرتا ہے

دشمن کے چوکس رہنے اور نفسیاتی طور پر احساس کمتری میں مبتلا ہونے کے بھی اپنی جنگی و نفسیاتی فوائد ہیں جوکہ مقبوضہ قوم کو میسر آجاتے ہیں، دشمن کا ہمہ دم چوکس رہنا قابض ملک کے لیئے ایک اضافی معاشی بوجھ ہے اور اسے ہمہ دم تیار اور چوکس رہنا پڑتا ہے کہ اب حملہ ہوگا کہ تب حملہ ہوگا، یہ بہرحال بلوچستان کے طول و عرض میں ایک عمومی صورتحال ہے لیکن جو شئے قلات منگچر میں ہونے والی بی ایل اے کی اس معرکے کو ممتاز بناتی ہے وہ ہے دشمن فوج پر کم سروسامانی کے باوجود غلبہ پاتے ہوئے نفسیاتی حوالے سے برتری حاصل کرنا کیونکہ جب کوئی معرکہ ہوتاہے تو چھاپہ مار جنگ کی بنیادی و آفاقی اصول و ضوابط یہی ہیں کہ کم از کم نقصان اٹھا کر دشمن قوتوں کو بھاری بھرکم نقصان سے دو چار کرنا

لیکن سوچا جائے کوئی چھاپہ مار کاروائی میں دشمن کے دس نفری ہلاک کرنے کے لیئے اپنے بھی آٹھ دس ساتھیوں کو قربانی کے بھینٹ چڑھا دیا جائے، یہ چیز سراسر غلط ہے۔ یہ نہ صرف ایک نقصان ہے بلکہ چھاپہ مار جنگی اصولوں کے برخلاف عمل بھی ہے اور اسکے ساتھ ایک لحاظ سے یہ دشمن کے لیئے ایک احساس برتری کی عنصر کو جنم دیتا ہے لیکن بغیر کسی نقصان کے دشمن کے عسکری پناہ گاہوں میں جاکر وہاں اپنے قبضے کو برقرار رکھنا اور دشمن کی لشکر کو ہر سطح اور ہر حساب سے ناک آؤٹ کرکے رکھ دینا بلوچ قوم کے لئیے نئے حوصلوں، ولولوں اور احساس برتری کا سبب بنے گا دوسری طرف دشمن کے حوصلوں کو پست کرنے اور انہیں ڈر اور شکست کے احساس سے دو چار کرنے کا باعث بنے گا۔

چھاپہ مار جنگی اصولوں کی بنیادی شرائط کے ساتھ نیک نیتی اور شعوری بنیادوں پر جُڑنے کے بعد ہی یہ راز افشاں ہوتا ہے کہ طویل جنگی مسافت اور قابض سے مقابلہ مہم جوئی سے نہیں بلکہ بہتر جنگی حکمت عملیوں، کم از کم نقصانات اور بہتر مواقعوں کے انتظار کے بعد ہی جیتی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز