Homeآرٹیکلزتامل تحریک اور بلوچ جہد آزادی میں مشابہت

تامل تحریک اور بلوچ جہد آزادی میں مشابہت

حصہ اوّل
تحریر: شہزاد بلوچ
ہمگام کالم:
جب تحریکیں ناکام ہوتی ہیں تو محظ دنیا کےطالب علموں
 اور اداروں کے لیے فقط ناکامی کے اسباب کی بنیاد پر ریسرچ بیسڈ اسٹڈیز بن جاتی ہیں اور دیگر کے لئے سبق تاکہ وہ ان غلطیوں سے اپنا دامن بچائے رکھیں جن کی وجہ سے تحریکیں ناکام ہوئیں۔ ناکامی کی شکار قوم اپنی ناکامی کو محض داستان جان کر خون کے آنسو رو کر اپنے سرکردہ لوگوں کی قربانیوں کے باوجود لعن طعن کرکے اپنی باقی ماندہ زندگی بدترین غلامی میں گزار دیتی ہے۔ آج ایک ایسی ہی داستان بیان کرتا چلوں جو ماضی قریب میں دنیا کی خبروں کی سرخیوں  کی زینت بنا ہوا ایک بےلگام اور عالمی دنیا کے  قوانین کو ردی کی ٹھوکری میں پھینک کر صرف اس سوچ کے ساتھ رواں دواں تھا کہ جنگ ہی سب کچھ ہے۔ ان کے نزدیک نہ سیاسی بصیرت اہمیت کی حامل تھی، نہ بیرون ملک سفارت کاری تاکہ دنیا میں اپنی تحریک کے لئے ہمدرد پیدا کئے جاسکیں اور نہ ہی یہ خیال کہ جب تک دنیا میں یہ بات قبول نہ کی جائے کہ اس خطے میں یہ قوم جو اپنی آزادی کے لئے لڑ رہی ہے ایک ذمہ دار قوم ہے۔ سوچ صرف دوسروں کو نفی کرنا اور خود کو ایک de facto  لیڈر جان کر خود پرستی میں مبتلا رہ کر ایک کامیاب تحریک کو غرق کر کے جب موت کی آغوش میں چلا گیا تو وقت کا وہی ہیرو اپنے اعمال کی وجہ سے انہی لوگوں کے لئے اس قدر نفرت کا باعث بنا کہ لوگوں نے اسی کے مرگ پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور آج بھی بعد مرگ اپنی ہی قوم کے لئے باعث شرمندگی اور رسوائی ہے.
جنوری 2008 میں امریکہ کے ادارے  FBI  نے تامل ٹائیگر کی بابت ایک اسٹیمنٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ “تامل ٹائیگر کا شمار دنیا کے خطرناک اور خونی شدت پسندوں میں ہوتا ہے” اکتوبر 1997 میں امریکہ نے  LTTE  کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے  FBI  نے اپنی رپورٹ میں اس امر کا اظہار کیا کہ “اس دہشتگرد تنظیم نے خود کش حملوں کو ایجاد کرکے عورتوں, کمسن بچوں اور صرف  2006-2007 کے دوران چار ہزار سے زائد لوگوں کو قتل کیا، اور یہ واحد تنظیم ہے جس نے سیاسی بنیاد پر دو نامور سیاستدان پرائم منسٹرز راجیو گاندھی اور سری لنکا کے صدر راناسنگے پریمادسہہ کا قتل کیا، اور یہ کہ اس تنظیم نے ہزاروں اپنے تامل باشندوں کو صرف سیاسی, اجارہ داری اور نظریاتی مخالفت کی بنیادوں پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک ریسرچ بیسڈ جریدے کے مطابق تامل باغیوں نے سن 1990-2006 سری لنکا کی ایک چوتھائی رقبے پر اپنا قبضہ جمایا ہوا تھا جن کے فوج کی تعداد بیس ہزار سے زائد تھی اور وہ جدید رسمی جنگ کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ بری جنگ سے برتر ان کے پاس بحری جنگی صلاحیتوں سے لیس ٹرینڈ کیڈر اور سپیڈ بوٹ کے علاوہ سبمیرین کثیر تعداد میں موجود تھے جو اسلحہ کی ترسیل سے لے کر اپنے دشمن کے مدمقابل بحری جنگ میں صف آراء رہتے تھے۔ ایسے ہی فضائی جنگی صلاحیتوں سے لیس تامل فورس کے پاس جنگی جہاز موجودہ تھے جنکے مدمقابل سری لنکن گورنمنٹ عالمی سطح پر تامل کے مد مقابل ایک شکست خوردہ اور شرمندہ ملک کی بابت جانا جاتا تھا. Asymmetrical warfare  کے حصول کے لیے تامل فورس نے ایک خودکش ٹیم تشکیل دی جسے “black tigers” کے نام سے جانا جاتا تھا اور جو بیرون ملک تامل قوم آباد تھی وہ بلینز آف ڈالر کے فنڈ ریزنگ LTTE  کے لیے کرتے تھے۔ اس جریدے کے مطابق دنیا کی آزادی کی تحریکوں میں نہ ماضی میں اور نہ ہی مستقبل میں کوئی ایسی مضبوط اور طاقتور تحریک رہی ہوگی یا پیدا ہوگی جس کی آزادی کا حصول تو یقینی تھا مگر اپنے رویے اور طور طریقوں سے نا آشنا آج تامل تحریک سمندر برد ہوکر رہ گئی۔
لیبریشن تامل ٹائیگر ایلحام کی زوال کے بابت یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لکھتا ہے کہ باوجود ایک تعلیم یافتہ قوم ہونے کے تامل قوم کے لیڈر  velluplai prabhakaran  ایک ضدی اور خود پرست شخص تھا جس نے قوم سے زیادہ خودی کو ترجیح دی۔ اس کے نزدیک اپنی قوم یا دشمن قوم کے لوگوں کو اغوا کرکے پیسے کمانا اور تحریک چلانا ایک جائز امر تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پربھا کرن اسٹیٹ بیلڈنگ کرتا اور اس امر میں جو تامل قوم بیرون ممالک آباد تھے انہیں تسلیم کرتا اور دنیا میں تامل ریاست کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے عالمی سپورٹ کے ذریعے قوم کی امنگوں پر پورا اتر کر عسکری طاقت کو سیاسی طاقت کے متبادل کے طور پر دنیا کے نقشے میں آزاد تامل ملک کا انعقاد کرتا لیکن اس کے برعکس  LTTE  نے نظریاتی بنیادوں پر لوگوں کا قتل عام کیا، نابالغ بچوں کو ورغلا کر عالمی قوانین کو رد کیا، لوگوں سے بھتہ وصول کیا اور اپنے ہی لوگوں کو زدوکوب کیا جسکی وجہ سے انٹرنیشنل کمیونیٹی اور خود تامل  LTTE کے خلاف ہونا شروع ہوئے۔  ایل ٹی ٹی ای  جس سے اس کے قوم نے آس لگائی ہوئی تھی کہ وہ انہیں ایک آزاد ریاست دے گی مگر وہ ایک فاشسٹ اور دہشگر تنظیم کے طور پر اپنی قوم اور عالمی سطح پر ابھرتی گئی۔ وہی  ایل ٹی ٹی ای جس کے قبضے میں 15000 مربع کلومیٹر اور بے تحاشا طاقت و دولت تھی مگر ایک مختصر مدت میں یکدم نیست و نابود ہوئی۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے مطابق  ایل ٹی ٹی ای کو کسی اور نے نہیں بلکہ خود کی غلط پالیسیوں نے زمین بوس کردیا، کیونکہ اس تنظیم نے اپنے اصل مقصد حصول آزادی کو بالائے تاک رکھ کر خود کو ایسی چیزوں میں  الجھا دیا جو دیمک کی طرح اُسے ختم کئے جا رہا تھا مگر شاید طاقت کے حوس نے  ایل ٹی ٹی ای کی قیادت  کو اندھا کر دیا کہ وہ صحیح سمت میں  منزل کی طرف رواں ہوتے۔
9/11 کے بعد دنیا کا نظریہ آزادی کی تحریکوں کی مانند تبدیل ہوا مگر  پربھاکرن نے دنیا کی نفی کرتے ہوئے وہ تمام حربے استعمال کیے جو اس کی نظر میں درست تھے، مثلاء دنیا اور خاص کر امریکہ خود کش حملوں، بچوں کی مسلح جدوجہد میں شمولیت، بے گناہ لوگوں کاقتل  اور سیاسی اشخاص کو نظریاتی اختلاف کی بنیادوں پر قتل کرنا وہ عوامل تھے جو دنیا کو قبول نہیں تھے مگر پربھاکرن  کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ Bruce Tamilson  کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر پربھاکارن اور تامل تحریک مغرب کی حمایت سے محروم رہی اور جس دن دنیا نے اپنی نظریں پھیر لیں تو سری لنکا کے لیے ایک سنہرہ موقع پیدا ہوا کہ وہ تاملز کو کرش کرسکے کیونکہ بیرون ملک تامل بھی ایل ٹی ٹی ای  کی پالیسیوں سے اس قدر  trap  ہوئے کہ کچھ عمل نہ کرسکے کیونکہ دنیا کی نظر میں تامل تحریک اب ایک دہشتگرد تحریک کے طور پر متعارف ہوئی تھی. Bruce  کے بقول ان سب کی وجہ  پربھاکرن کا ضدی رویہ تھا کیونکہ وہ ہمیشہ یہ سوچھتا تھا کہ “ہم دنیا کی حمایت کے بغیر  بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے اور طاقت کی بنیاد پر دنیا کو اپنے قدموں میں جھکا کر اپنا مقصد پورا کریں گے۔ سری لنکا میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہندوستان نے باقاعدہ طور پر مداخلت شروع کردی اور سری لنکا کو فوجی کاروائی کی دھمکی بھی دے ڈالی اور ہر طرح سے سری لنکا کی حکومت پر دباؤ بنائے رکھا کہ وہ تامل ٹائیگرز سے مذاکرات کرے جس کے بعد سری لنکا کی حکومت مجبور ہوئی اور مذاکرات کی میز پر آنے میں مجبور ہوئے۔ “.Bruce  کے بقول تامل تحریک کا زوال دراصل طاقت کا بے جا استعمال اور عمرانہ سوچ تھی جو دراصل کمو بیش ہر تحریک میں  پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے  Bruce Temilson  لکھتے ہیں کہ “عموماً تحریکی جنگوں میں  ڈکٹیٹرشپ  زیادہ ہوتی ہے اور طاقت کا بے جا استعمال متوسط طبقہ اپنے ہی لوگوں پر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ  ایل ٹی ٹی ای کے ظلم وستم سے متاثر تھے جنہیں تامل کنٹرول علاقوں سے ہجرت کرنا پڑی اور ان سب کا ذمہ دار  پربھاکرن  ہی تھا جو  ہمیشہ عوامی مسائل سے غافل تھا جسکی بنا پر تامل قوم کا بڑھا طبقہ اس تحریک سے متاثر ہوا۔
سیاسی بلوغت کے حوالے سے  Bruce  لکھتے ہیں کہ ” پربھاکرن  سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے صرف جنگ ہی انکا محور تھا۔ در حقیقت جنگی محاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی بلوغت ایک لازم امر ہے مگر  پربھاکرن  نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہیں دی اگر دی بھی تو صرف اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے۔ پربھاکرن  اپنے سیاسی مشیر Anton Balasingam  کے علاوہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایک مضبوط سیاسی دائرہ بنانے میں ناکام رہا۔ اسے چاہئیے تھا کہ وہ قوم کے تعلیم یافتہ طبقے اور بیرون ملک آباد  تاملوں کی مدد سے ایک غیر جانبدار سیاسی ادارہ تشکیل دیتا مگر اس نے صرف ایسی سیاسی ٹیم تشکیل دی جو  ایل ٹی ٹی ای  کے بندوق کے سائے تلے کام کرے۔ ایل ٹی ٹی ای نے کبھی بھی جمہوری اقدار کی حوصلہ افزائی نہیں کی یہی وجہ تھی کہ تامل تحریک کے سیاسی ادارے ہمیشہ  puppet  ادارے ہی رہے یہی وجہ تھی کہ اس کے ذہن میں کبھی دوسروں کو قبول کرنا یا عالمی مدد لینا ہوتا کیونکہ اسکی سوچ صرف  ایل ٹی ٹی ای  تک محدود تھی۔ اگرچہ ابتدا میں تامل تحریک کے سپورٹر عالمی سطح پر براجمان تھے کہ یہ تحریک کامیاب ہو تو  south Sinhalese land  کی اہمیت کو بروئے کار لا کر طاقتور ممالک چین اور امریکہ کی صورت میں اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کریں مگر تحریک اپنے ٹریک سے ہٹ کر ایک عالمی دہشتگرد تنظیم ہو کر رہ گئ جو کسی ملک کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ “
تامل تحریک کے سربراہ  پربھاکرن اس قدر اپنی قومیت و تحریک سے مخلص تھے کہ ان کا ایک قول مشہور ہے کہ “اگر میں بھی تحریک سے غداری کروں تو مجھے موت کی سزا دینا۔” تامل کا اختتام صرف چند وجوہات کی بنا پر ہوا ایک انکی غلط حکمت عملی اور دوسرا عالمی قوانین سے انکاری ہونا۔ باوجود کے ان کے پاس جنگجو اور ہتھیار قصیر تعداد میں تھے مگر طاقت، شہرت اور دولت ہی انکو انہی کی سر زمین پر نگل گئ۔ آج اگر ہم بلوچ تحریک کا مشاہدہ کریں تو وہ کون سی غلطیاں تھیں جن کو کہیں ہم تامل بن کر دہرہ تو نہیں رہے۔ ماضی قریب میں غداری، سیاسی اختلافات اور منشیات فروشوں کے کہنے پرتحریک کے نام پر لوگوں کا قتل عام ہوا، بندوق کی نوک پر مسلح تنظیموں نے سیاسی تنظیموں کو اپنے ماتحت کرکے سیاسی قوت کو بھی مسلح رنگ دی، عدم برداشت، تنظیموں کے امور میں  دخل اندازی اور سرکش لوگوں کی حمایت یہ وہ اعمال یا عوامل  ہیں جو تامل تحریک کی طرح کسی بھی وقت خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس قدر مسلح گروہ بیرون ملک قومی رہبروں کو بیرونی ایجنٹ اور جنگی منافع خور کے الکابات سے نواز کر اس امر کو تقویت دے رہے ہیں کہ بیرون ملک بلوچ کسی طرح سے تحریک کے معاملات کو اجاگر نہیں کرسکتے۔ اس کمزور ذہن کے ساتھ تحریک کو دوام بخش رہے ہیں کہ اگر کوئی بلوچ بیرون ملک نمائندگی کرے تو شاید باہر بیٹھے گراؤنڈ گراؤنڈ کی رٹ لگانے والوں کی خود ساختہ لیڈری ختم ہو جائے گی. آج ہم ہی دنیا میں شاید وہ قوم ہیں جو ان عوامل پر عمل پیرا ہیں جن کی وجہ سے تامل تحریک ایک تلخ داستاں بن کر رہ گئی۔ ماضی کے کیے کردے سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ہم روز نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں ہے جن کی وجہ سے تحریک عالمی و قومی سطح پر اپنی ساکھ کھو رہی ہے پے در پے خود کش حملے “black tigers ” کی طرح “Majeed Brigade ” کو بغیر سوچے سمجھے دنیا میں متعارف کروانے کے چکر میں بی ایل اے کو چند سالوں میں دہشتگرد تنظیم قرار دلوا دیا.
ہنوز اپنی اپنی اصلاح کے بجائے ہم ان قوموں کی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں جنہوں نے اپنے عروج کو اپنی غلط پالیسیوں سے زوال پذیر کر دیا اور ہزاروں قربانیوں کے باوجود آزادی حاصل نہیں کر سکے. تاملوں کی طرح اب ایک نئے حربے کے ساتھ کچھ سرکردہ لوگوں نے اب قومی سطح پر یہ رٹ لگانا شروع کیا ہے کہ بلوچ جہد دنیا کے کہنے پر شروع نہیں ہوئی لہذا اب ہم دنیا اور اس کے قوانین کو رد کرتے ہیں۔ اگر تامل جو بحری، فضائی اور بری جنگجوؤں اور تعداد کے لحاظ سے بلوچ قوم سے سینکڑوں بار قوی تھے مگر غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ آج اگر رائفل و خود ساختہ بندوقوں کی بنا پر ہم خود کو دنیا کے سامنے ایک جاہل و سفاک قوم پیش کریں گے اور اپنی ناکامیوں کا اعتراف نہیں کریں گے تو کیونکر دنیا ہمیں مستقبل قریب میں جہاں چین اور امریکہ آمنے سامنے ہیں، جدید ہتھیاروں سے لیس کرے گی. چلو کچھ لمحے کے لیے مان بھی لیں کہ بلوچ قوم کے مذکورہ جنگجوؤں کو دنیا کی مدد درکار نہیں تو آزادی کو منوانے کے لیے خلا سے مخلوق و قوم ہماری آزادی کو تسلیم کرتے ہوئے بلوچ قوم کے ساتھ ڈپلومیٹک کور شروع کرے گی. ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہمارے ہر عمل پر دنیا نظر رکھی ہوئی ہے اور قابض اپنے کتابچہ کو رنگین کرکے دنیا کے سامنے اس انداز سے رکھے گی کہ دنیا تامل کی طرح ہماری پوری تحریک کو عالمی سطح پر دہشت گرد ثابت کرکے ایک بڑا محاذ کھول سکتی ہے جہاں ہمیں مشترکہ طور پر نیست و نابود کر دے گی جیسا کہ تامل کو انڈیا اور سری لنکا نے مشترکہ طور پر زیر کر دیا اور کسی ایک ادارے یا ملک نے جرات نہیں کی کہ تامل کی مدد کی بابت کچھ کرتے اور تامل باوجود اپنی عسکری جدت کے ساتھ کچھ نہ کر سکے۔
(جاری ہے)
Exit mobile version