استنبول (ہمگام نیوز) فلسطینی تحریک حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ہفتے کے روز ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کریں گے جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے کیونکہ اسرائیل نے ایران پر مبینہ طور پر حملہ کیا ہے اور غزہ ایک نئے اسرائیلی ظلم و تشدد کی تیاری کر رہا ہے۔

ایردوآن نے فلسطینی تنازعہ میں ثالث کے طور پر قدم جمانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اور وہ حماس کے سربراہ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں محتاط رہے ہیں۔

جمعہ کو صحافیوں کے سوال پر ایردوآن نے کہا، “ایجنڈا ہم اپنے اور ہنیہ صاحب کے درمیان ہی رکھیں گے۔” لیکن قطر کے اس بیان کے ساتھ کہ وہ حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالث کے طور پر اپنے کردار کا از سرِ نو جائزہ لے گا، ایردوآن نے بدھ کے روز اپنے وزیرِ خارجہ خاقان فیدان کو دوحہ بھیجا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ مذاکرات میں ایک کردار چاہتے ہیں۔

صدر نے بدھ کے روز ہنیہ کے آئندہ دورے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا، اگر صرف میں طیب ایردوآن ہی باقی رہا تب بھی جب تک خدا مجھے زندگی دے، میں فلسطینی جدوجہد کا دفاع کرتا اور مظلوم فلسطینی عوام کی آواز بنتا رہوں گا۔”

حماس کا ترکی میں 2011 سے دفتر ہے جب ترکی نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے لیے گروپ کے ساتھ معاہدہ کروانے میں مدد کی تھی۔ ایردوآن نے ہنیہ کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہیں جو اکثر ترکی کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔

واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی میں ترک امور کے ماہر سنان سِدی کے مطابق وزیرِ خارجہ فیدان ماضی میں ترک انٹیلی جنس کے سربراہ تھے اور اس ملک نے حماس کے عہدیداروں بشمول ہنیہ کو معلومات اور پاسپورٹ فراہم کیے تھے۔ البتہ ترک حکام نے اس کی کبھی تصدیق نہیں کی۔

اگر قطر ثالثی کی کوششوں سے دستبردار ہوتا ہے تو ترکیہ حماس کے روابط کی بنیاد پر اپنا ثالثی حصہ بڑھانے کی کوشش کر سکتا ہے اور فیڈان ہفتے کے روز مصری وزیرِ خارجہ سامح شکری کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ غزہ کے شہر رفح کے خلاف جارحیت کی تیاری کر رہا ہے اور ایران کے صوبے اصفہان پر اسرائیلی حملے کی اطلاع نے امن کی پیش رفت کی امیدوں کو دھندلا دیا ہے۔

لیکن سِدی کے مطابق ایردوآن سے صرف “انتہائی محدود” کردار کی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ اسرائیل کی اور غزہ میں اس کے اقدامات کی واضح مذمت کرتے ہیں۔

گذشتہ سال ترک رہنما نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حربوں کو نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کے حربوں سے تشبیہ دی اور سات اکتوبر کو اسرائیل پرحملوں کے بعد حماس کے خلاف کارروائی کی وجہ سے اسرائیل کو “دہشت گرد ریاست” قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایردوآن کا اسرائیل میں خیر مقدم نہیں کیا جائے گا اور وہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی اور اسرائیلی مذاکرات کاروں کے درمیان پیغامات پہنچانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

ماہر نے کہا کہ سات اکتوبر سے یرغمال بنائے گئے افراد کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں ترکی کا حماس پر زیادہ اثر و رسوخ نہیں ہو گا۔

پریس رپورٹس کے مطابق جن کی کبھی تردید نہیں کی گئی، ہنیہ اور حماس کے دیگر رہنما استنبول میں تھے جب حملے کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سے خاموشی سے وہاں سے نکل جانے کی درخواست کی گئی تھی جب ایک تصویر میں دکھایا گیا کہ وہ اس مہلک حملے کا جشن منا رہے تھے۔

ہنیہ جنوری میں ترکی واپس آئے اور فدان سے ملاقات کی۔

جولائی 2023 میں ایردوآن کے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے مذاکرات ہوئے جس کے بعد سے ہنیہ نے ترک صدر سے ملاقات نہیں کی۔