ہمگام نیوز : ترکی کے قدیم شہر ہائراپولس (Hierapolis) میں واقع ’گیٹ ٹو ہیل‘ کے بارے میں قدیم دور سے یہ ڈرا دینے والی بات مشہور چلی آ رہی ہے کہ جو بھی اس کے اندر جاتا ہے، زندہ نہیں لوٹتا، سائنس دانوں نے آخر کار اس کی حقیقت معلوم کر لی ہے۔

جہنم کا یہ دروازہ 2013 میں ترکی میں دوبارہ دریافت ہوا تھا، اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دوسری دنیا کو جانے والا راستہ ہے اور جو بھی اس کے اندر گیا واپس نہیں آیا۔

یہ پتھر سے بنا دروازہ ہے جو ایک چھوٹے سے غار نما کھوہ کی طرف جاتا ہے، گیٹ کو ایک مستطیل کھلے میدان کی ایک دیوار میں بنایا گیا تھا، جس کے اوپر ایک مندر تھا اور اس کے چاروں طرف زائرین کے لیے پتھر کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ کہا جاتا تھا کہ یہ دروازہ زیر زمین دنیا پر حکومت کرنے والے موت کے یونانی دیوتا کی مہلک سانسوں سے بھرا ہوا تھا، جو بھی اس کے قریب جاتا ہے موت کے منہ میں گر جاتا ہے۔

یہ دروازہ ایک غار کی طرح کا اسٹرکچر ہے، جس کی دیوار بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی ہے اور چند فٹ کا ایک دروازہ بھی پتھروں کے لمبے اور چوکور تراشے ہوئے ستونوں سے بنایا گیا ہے، جو اب آدھے سے زیادہ زمین میں دھنس چکا ہے تاہم اب بھی اتنا زمین سے باہر ہے کہ آدمی بہ آسانی اس میں داخل ہو سکتا ہے۔

اس کے متعلق پائی جانے والی یہ کہانی 2 ہزار سال قبل یونانی ماہر جغرافیہ سٹاربو نے اپنی کتاب میں بیان کی جو ایسی مشہور ہوئی کہ آج تک لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں، دراصل اس دروازے کے اندر ایسا گھپ اندھیرا ہے کہ اندر کچھ بھی نظر نہیں آتا، کہا جاتا ہے کہ یہ گڑھا قدیم زمانوں میں یونانی لوگوں نے دیوتاؤں کے لیے قربانیاں دینے کی غرض سے بنایا تھا۔

اب سائنس دانوں نے معلوم کر لیا ہے کہ اس دروازے کے اندر بہت گہرائی ہے اور آب و ہوا بہت نمی والی ہے اور اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی چیز اس میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ رات ہوتے ہی اس دروازے کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بہت بڑھ جاتی ہے۔

جرمن یونیورسٹی آف ڈوئسبرگ ایسین کے ماہرین کے مطابق اس دروازے کے اندر کئی پرندے اور جانور رسیوں کے ساتھ باندھ کر پھینکے گئے اور سب کے سب مردہ حالت میں باہر نکالے گئے، ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان کی موت کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی ہے۔