استنبول(ہمگام نیوز) ترک سکیورٹی فورسز نے ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں اس اختتام ہفتہ پر مزید بتیس کرد باغی جنگجوؤں کو ہلاک کردیا ہے۔

جولائی میں ترک حکومت اور کرد علاحدگی پسند جماعت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ایک دن میں باغیوں کی یہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔

ترکی کی مسلح افواج نے اتوار کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ ہفتے کے روز شام اور عراق کی سرحدوں کے نزدیک واقع دو قصبوں چیزر اور سیلوپی میں سولہ باغیوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔علاقے کے سب سے بڑے شہر دیاربکر کے تاریخی علاقے سور میں چار جنگجو مارے گئے ہیں۔

بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان تینوں علاقوں میں گذشتہ ماہ سے جاری چوبیس گھنٹے کے کرفیو اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں کل 448 جنگجو مارے جاچکے ہیں۔ترک فورسز نے ان علاقوں میں پی کے کے کے جنگجوؤں کے خلاف دسمبر میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا تھا۔

ادھر ترکی کے جنوب مشرقی شہر وان میں پولیس نے ایک مکان میں چھاپہ کارروائی کے دوران بارہ کرد باغیوں کو ہلاک کردیا ہے اور باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک پولیس افسر ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔گذشتہ جمعہ کے روز چیزر میں سولہ اور سور میں اٹھارہ جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ 2015ء کے دوران ترکی کے اندر اور بیرون ملک پی کے کے کے تین ہزار ایک سو ارکان کو ہلاک کیا گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں کرد باغیوں اور ترک فورسز کے درمیان جاری لڑائی سرحدی دیہات سے شہری علاقوں میں منتقل ہوچکی ہے جس سے شہری محصور ہو کررہ گئے ہیں اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ان شہروں اور قصبوں سے ہزاروں افراد محفوظ مقامات کی جانب چلے گئے ہیں یا جارہے ہیں۔علاقے کے مکینوں نے بلا امتیاز آپریشن کی شکایت کی ہے اور کہا ہے کہ کرفیو کے دوران وہ بیماروں کو اسپتال بھی نہیں لے جاسکتے ہیں۔

ترک حکومت اور علاحدگی پسند کردستان ورکرز پارٹی کے درمیان جولائی 2015ء میں جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے اور کم وبیش روزانہ ہی کرد باغیوں اور ترک سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں یا پھر کرد باغی سکیورٹی فورسز پر بم حملے کررہے ہیں۔

پی کے کے اور انقرہ حکومت کے درمیان سنہ 2012ء کے آخر میں امن سمجھوتے پراتفاق ہوا تھا جس کے تحت کرد باغیوں نے سکیورٹی فورسز پر حملے روک دیے تھے اور ان کے خلاف ترک فوج نے بھی جنگی مہم بند کردی تھی لیکن ترک حکومت اور کردوں کے درمیان امن مذاکرات میں گذشتہ تین عشروں سے جاری اس تنازعے کے خاتمے کے لیے کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں 1984ء سے جاری اس خونریزی میں پینتالیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔پی کے کے کا موقف ہے کہ وہ کردوں کو زیادہ حقوق اور خودمختاری دلانے کے لیے لڑرہی ہے۔ واضح رہے کہ ترکی اور اس کے مغربی اتحادیوں نے پی کے کے کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔