برلن ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق ایرانی دارالحکومت تہران میں امیر کبیر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے 121 پروفیسرز نے ایک خط شائع کیا جس میں حکومتی حکام کی جانب سے “طلبہ کے ساتھ سختی سے نمٹنے” کے لیے تیار کیے گئے منصوبے کے خلاف متنبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ طلبہ پر جبر میں اضافہ عوامی مصالح اور منطق کے بھی خلاف ہے۔ یہ ایک نامناسب اقدام ہے اور مظاہروں کو مزید بڑھکانے کا سبب بن سکتا ہے۔
“ایران انٹرنیشنل” ویب سائٹ کے مطابق تہران کی امیر کبیر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے پروفیسرز نے کہا کہ اس خط کو لکھنے کی وجہ کچھ شدت پسندی کے امکان کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی حکام اور دیگر حکومتی اداروں کی طرف سے اس طرح کی انتہا پسندی کا مظاہرہ یقینی طور پر صورتحال کو مزید خراب کر دے گا۔
یونیورسٹی کے صدر حسن قدسی پور کے نام لکھے گئے اس خط پر 5 نومبر کو 121 پروفیسروں نے دستخط کئے ہیں۔
خط لکھنے والوں کے متعلق تفصیل نہیں بتائی گئی تاہم اساتذہ نے کہا گزشتہ چند دنوں میں طلباء کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے لیے تجاویز سامنے آئی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حساس ماحول میں یہ حل غلط ہے۔
طلبہ اور معاشرے کی نفسیاتی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے صبر اور استقامت کے ذریعے یونیورسٹی کے ماحول میں امن حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
امیر کبیر یونیورسٹی کے پروفیسرز نے احتجاج میں شریک طلبہ کے لیے تادیبی سزاؤں کے اجراء کے خلاف بھی احتجاج کیا اور کہا کہ ان دفعات نے طلباء اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان تصادم کو مزید تیز کر دیا۔ طلباء کی گرفتاری یونیورسٹیوں میں تعلیمی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے۔
امیر کبیر یونیورسٹی کے پروفیسرز کے خط کے ایک حصے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی اجتماع خصوصاً یونیورسٹی کے احتجاج میں جنسی توہین کا استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن اس رجحان سے نمٹنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ طلبہ کو تعلیم سے محروم کرنے کی دھمکیاں دی جائیں اور انہیں یونیورسٹی کے باہر کے اداروں میں مقدمہ کی سماعت کیلئے پیش کیا جائے اور قید کی سزا سنائی جائے۔
اساتذہ کرام نے اس بات پر زور دیا کہ طلبہ کے جذبات کو ملیشیا کے رویے سے منسوب کرنا صورت حال کو خوفناک بناتا ہے اور سخت حفاظتی ماحول پیدا کرتا ہے۔
یاد رہے کہ 17 ستمبر کو ملک گیر مظاہروں کے آغاز کے بعد سے ایرانی یونیورسٹیوں میں زبردست احتجاجی ریلیاں اور طلباء کی ہڑتالیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی پر 2 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد سے ایرانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے مختلف شہروں بالخصوص طہرا، مازندران اور کردستان میں متعدد یونیورسٹیوں اور طلبہ کی رہائش گاہوں پر حملے کیے جا چکے ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید جبر اور سینکڑوں طلبہ کی گرفتاریوں کے باوجود طلبہ کے احتجاج میں شدت اور وسعت آتی گئی اور ایران مخالف نعروں کے ساتھ ساتھ علی خامنہ ای کے خلاف نعرے بھی طلبہ کے مظاہروں کا حصے بن گئے۔
ایران کی برطانوی صحافیوں کو قتل کی دھمکی
لندن میں قائم فارسی زبان کے ٹی وی چینل ایران انٹرنیشنل کے لیے کام کرنے والے دو ایرانی صحافیوں کو ایرانی حکومت کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بات چینل کے مالک گروپ نے پیر کے روز بتائی۔
وولینٹ میڈیا نے اپنے بیان میں کہا کہ برطانیہ میں کام کرنے والے برطانوی ایرانی صحافیوں کو پاسداران انقلاب کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔
ان دھمکیوں کے بعد صحافیوں نے باضابطہ طور پر لندن پولیس کو آگاہ کردیا اور پولیس کو بتایا ہے کہ ہمیں، ہمارے اہل خانہ کی زندگی خطرے میں ہے۔
اے ایف پی کے ساتھ رابطے میں لندن پولیس نے کہا کہ وہ مخصوص افراد پر مشتمل سیکیورٹی کے مسائل پر تبصرہ نہیں کرتے ہیں۔ چینل کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ دھمکیاں برطانیہ میں صحافیوں کے خلاف ایک ریاست کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔
نئی پابندیاں
ایک اور تناظر میں جرمن حکومت کے ترجمان نے پیر کو کہا کہ یورپی یونین فیصلہ کرے گی کہ آیا ایرانی پاسداران انقلاب کو نئی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جائے یا نہیں۔ ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی فہرست تیار کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ان نئی پابندیوں کی مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
26 دہشت گردوں کی گرفتاری
پیر کے روز ایرانی وزارت سلامتی (انٹیلی جنس) نے شیراز شہر میں ایک مذہبی عبادت گاہ پر خونریز حملے کے سلسلے میں 26 غیر ملکی “تکفیری دہشت گردوں” کو گرفتار کرنے کا اعلان کردیا۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
26 اکتوبر کو صوبہ فارس کے دارالحکومت شیراز میں واقع سید احمد بن موسیٰ الکاظم کے مزار پر ایک بندوق بردار کی فائرنگ سے کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
وزارت نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ اب تک کی گئی نگرانی کی کارروائیوں کے نتیجے میں 26 تکفیری دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ دہشتگرد مزید اسی طرح کی کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ ان کا یہ حملہ 2019 کے بعد ایران میں کیا گیا سب سے مہلک حملہ تھا۔
یاد رہے اصطلاح “تکفیری” عام طور پر شدت پسند مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
وزارت نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد غیر ایرانی ہیں اور ان کے پاس آذربائیجان، تاجکستان اور افغانستان کی قومیتیں ہیں۔ انھیں ملک کی مشرقی سرحدی علاقوں، فارس، تہران، البرز، کرمان اور خراسان رضوی جیسے صوبوں سے گرفتار کیا گیا ہے۔
یاد رہے 31 اکتوبر کو وزارت نے حملے کے سلسلے میں 7 افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جن میں شوٹر کی مدد کرنے والا بھی شامل تھا۔ شوٹر کو حملے کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا تھا اور وہ بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا۔
وزارت سلامتی نے پیر کو بتایا کہ فائرنگ کرنے والے مجرم کی شناخت سبحان کامرونی کے نام سے ہوئی ہے ، اسے ابو عائشہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ تاجکستان کا شہری تھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک کے اندر کارروائیوں کی ہدایت اور رابطہ کاری کے بنیادی کردار آذربائیجان کے شہری ہیں، یہ افراد باکو سے تہران کے امام خمینی ہوائی اڈے کے ذریعے ایران میں داخل ہوئے۔
تیل کی تنصیب میں آگ
ایران کے مقامی میڈیا کے مطابق اتوار کو جنوب مغربی ایران میں تیل کی ایک تنصیب میں “محدود” آگ لگ گئی جس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔
فارس خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ عراق کے ساتھ سرحدی صوبے خوزستان کے شہر ماھشہرمیں برآمدی بندرگاہ سے منسلک تیل کے کھلے چینلز میں آگ لگ گئی۔ اس مقام پر ایرانی پیداوار کے سب سے بڑے کنویں بھی موجود ہیں۔
ایجنسی نے وضاحت کی کہ آگ کی وجہ سے “ماہشہر بندرگاہ کے آسمان میں گاڑھا دھواں دیکھا گیا۔
فائر فائٹرز نے آگ کو بندرگاہ میں تیل کے ٹینکوں تک پھیلنے سے روک لیا۔ آگ لگنے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
مقامی میڈیا نے بندرگاہ کے سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ آگ کی وجہ بجلی کا شارٹ سرکٹ تھا۔ حالیہ بارش سے بجلی کے نظام میں خرابی سے مسئلہ پیدا ہوا۔
دریں اثنا ایرانی میڈیا نے اتوار کو اطلاع دی ہے کہ ماھشہر میں پاسداران انقلاب کے مرکز پر حملہ کرنے کی کوشش کرنے والے ایک شخص کو مار دیا گیا ہے۔