Homeآرٹیکلزجھوٹ اور غلط بیانیوں کے بیچ اُٹھتا دھیماسچ

جھوٹ اور غلط بیانیوں کے بیچ اُٹھتا دھیماسچ

تحریر: ممتاز بلوچ

ہمگام کالم:
ڈر انسانی زندگی میں ایک انتہائی کیفیت ہے۔ اس کا شکار انسان ہمیشہ غلط فیصلے کرتا ہے اور وہ غلط فیصلے غلط اعمال کی صورت میں سامنے آکر نقصان کا باعث بن جاتے ہیں جس سے متاثر ہوکر فرد پھر معاشرہ اور پھر پوری قوم اس سے اثر مند ہوجاتی ہے۔
ڈر ایک کاروبار ہے جس سے سیانے لوگ ہمیشہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کیفیت کی شروعات جذبات سے ہے۔ جس وقت انسان شعوری بنیادوں پر ایک کام کی شروعات کرتا ہے تو وہ ڈر اور جذبات جیسی کیفیات سے ہمیشہ بازیاب رہتا ہے۔ کچھ لوگ معاشرے کو آخرت سے ڈرا کر اپنی دکان بناتے ہیں، کچھ لوگ مالی نقصان سے ڈرا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اس گمراہ کن کیفیت میں اپنا کام نکال لیتے ہیں اور کچھ لوگ خراب مستقبل کے نام سے ڈرا کر اپنے  کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔ آخر میں آکر ایک چیز جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ ہے “جھوٹ” اور “غلط بیانی” جس سے فائدہ اٹھا کر سیانے لوگ قدرے سادہ لوح انسانوں کو ڈر میں مبتلا کردیتے ہیں۔
جھوٹ اور غلط بیانی کی آواز ہمیشہ اونچی کرنی پڑتی ہے تاکہ سچ کی آواز دھیمی رکھی جاسکے جو کسی کے کانوں تک نہ پہنچ پائے اور اس کے پیچھے وجہ وہ ڈر اور خوف ہے کہ کہیں سچ سامنے آکر جھوٹ کا پردہ فاش نہ کر جائے اور دکانیں بند نہ ہوجائیں لیکن سچ چونکہ کائینات میں ایک ایسی شے کی حیثیت رکھتا ہے کہ چھپائے نہیں چھپتا۔ دیر سویر باہر آ ہی جاتا ہے اور جب سچ کا ظہور ہوتا ہے تو جھوٹ اور اس سے منسلک کردار اپنے آپ مرجاتے ہیں۔
بلوچ قومی تحریک آزادی چونکہ ایک انسانی تحریک ہے اور انسانی معاشرے میں کاروباری لوگوں کا وجود نہ ہو نا ممکن سی بات ہے۔ اسی بنیاد پر کاروباری لوگوں کی کثرت اس انسانی تحریک میں بھی وجود رکھتی ہے۔ اس انسانی تحریک میں بہت سے لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں شامل ہوئے، مدد و کُمک طلب کی جو خالصتاً قومی فریضہ کی بنیاد پر ان کو دی گئی تاکہ وہ اس قومی مقصد میں اپنی شراکت داری شامل رکھ کر اس کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ان کو طاقت فراہم کی گئی چاہے وہ طاقت وسائل کی صورت میں ہو یا افرادی قوت کی غرض یہ کہ ہر طرح سے انہیں خود کفیل بنایا گیا مگر چونکہ نظر آسمان اور پیر کیچڑ کے مصداق لوگوں کے وجود سے انکار ممکن نہیں اسی طرح یہاں بھی کچھ عناصر ایسے بھی شامل ہوئے جن کی نظر آسمانوں پر تھی اور پیر کیچڑ میں جنہوں نے کیچڑ سے اپنی جان خلاصی کی کبھی کوشش بھی نہیں کی اور اسی کو غنیمت جان کر آسمانوں کی جانب اُڑنے کی کوشش میں رہے جو یقیناً ایک ناممکن امر تھا۔
کہتے ہیں طاقت ایک ایسی چیز ہے جس کو سنبھالنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تو اس کیفیت کا شکار ہوتے ساتھ ہی کیچڑ میں پڑے لوگ اس کیچڑ میں مزید لوٹ پوٹ ہوگئے اور ٹھیک ٹھاک طریقے سے اس کو اپنے جسم پر ملتے رہے۔ چونکہ ان کا مقصد قومی سے زیادہ ذاتی اور گروہی مفادات تھے لہٰذا ذاتی طاقت اکھٹی کرنے کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ اپنی فوج ظفر موج اور جھوٹی طاقت بڑھانے کے چکر میں بغیر کسی تحقیق اور کرداری تعین کے لوگوں کو جنگ کا حصہ بنایا گیا جن میں سے کافی لوگ پھر بعد میں ایسے بھی ثابت ہوئے کہ انہوں نے شمولیت ہی اپنی ذاتی دشمنیاں اور ختلافات کا بدلہ لینے کی غرض سے تنظیموں میں اختیار کی ہوئی تھی۔ اس تمام صورت حال میں مصلحت نے جگہ بنائی اور لوگ بے لگام ہوگئے اور سرکردہ لوگ خاموش کیونکہ “ڈر” تھا کہ کہیں یہ “جھوٹی” طاقت کی بنائی گئی عمارت منہدم نہ ہوجائے۔ بے لگام لوگوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل تنظیموں کی چھتری تلے شروع کی اور پھر ایک سلسلہ شروع ہوا مخبری کے نام پر لوگوں کے قتل کا جس نے ہمیں اتنا نقصان پہنچایا جتنا دشمن فوج بھی نہ پہنچا سکی۔
اگر گوریلا کی تعریف دیکھی جائے تو گوریلا اس کردار کا نام ہے جو دن بھر لوگوں میں رہتا ہے عام حالات میں زندگی گزارتا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے اپنے مقصد پر کاری ضربیں لگاتا رہتا ہے جس سے دشمن کبھی بھی یہ اندازہ لگا پانے میں ناکام رہتا ہے کہ اس پر یہ ضربیں لگا کون رہا ہے مگر ہماری تحریک میں چونکہ قومی مقصد کو شائد اولیت کبھی حاصل ہی نہیں تھی تو اس میں شامل کرداروں نے تمام گوریلا اصولوں کو پس پُشت ڈال کر اپنے اپنے اصول بنائے اور انہی کو بنیاد بناکر ایک بے اصولی کے عالم میں بے تُکے اور بے ڈھنگے انداز میں آگے بڑھنے کی شروعات کردی۔
اب اگر گوریلا وار فئیر کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو ایک عام سے انسان میں ایسی کونسی طاقت آگئی کہ اس نے آپ کے تنظیمی گوریلوں کی پہچان کرلی اور مخبری کا کام انجام دینے لگ گیا جس سے اس کی موت کی سزا واجب ٹھہری؟ اگر ایک منٹ کے لئے آپ کے اس منطق کو مان بھی لیا جائے کہ وہ مخبر ہی تھے جو آپ کی بے رحم گولیوں کے نشان بنے لیکن ایک مطالبہ تو بنتا ہے کہ جناب آپ نے کسی کو اس لقب سے نواز دیا اور اس کی جان تک لے لی مگر آپ کے پاس ثبوت کیا ہیں۔ دوسری طرف مکمل خاموشی، نہ کوئی ثبوت سامنے آیا اور نہ ہی اپنی صفوں میں اس حوالے سے کوئی قانون سازی ہوئی بلکہ اُسی رفتار سے آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رہا یوں ہر ایک علاقہ اور خاندان اس مخبری کے الزام میں اپنے پیارے کھوتا گیا اور قومی تحریک نفرت، بیگانگی اور تنہائی سمیٹتی رہی۔ سونے پہ سہاگا تو یہ ٹھہرا کہ متاثرین نہ صرف بیگانگی اور نفرت کا شکار ہوئے بلکہ دشمن کی صفوں میں جا شامل ہوئے اور قومی تحریک و مقصد کے خلاف صف آرا ہوئے۔ اگر مکران ہی کو بطور ایک مثال دیکھا جائے تو اس میں جتنے بھی ڈیتھ اسکواڈ وجود رکھتے ہیں وہ سب کے سب یا تو آپ کی صفوں سے نکلے لوگ ہیں جن کو آپ نے اپنی جھوٹی طاقت کے لئے بغیر کسی تحقیق کے شامل کیا تھا یا پھر وہ لوگ ہیں جو آپ کی جھوٹی طاقت کی خاطر ذاتی مقاصد، دشمنیاں اور اختلافات کے بدلے لینے کے لئے شامل ہوئے اور مقصد پورا کرکے آپ کے خلاف دو صفیں بنا گئے ایک وہ خود آپ کے خلاف مسلح ہوئے دوئم ان کے ہاتھوں بے گناہ مارے گئے لوگوں کے عزیز “بلوچی انتقام” کی آگ میں جھلستے ہوئے آپ کے خلاف مسلح ہوکر آگے آئے۔ دونوں صورتوں میں نقصان آپ کا، قوم کا اور قومی تحریک کا اور اس سب کی وجہ آپ کی جھوٹی طاقت حاصل کرنے کی حوس۔
چرب زبان آکر یہ دعویٰ داغ دیتے ہیں کہ حالیہ بلوچ قومی تحریک کو روایات سے مکمل آزاد کرلیا گیا اور ماضی کے برخلاف اس جنگ کو پہاڑوں سے نکال کر شہروں میں وسعت دی گئی۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ شروعاتی ادوار میں تو آپ اس کو پہاڑوں سے نکال کر شہروں تک لے آئے مگر گزرتے وقت کے ساتھ جہاں اس کو مظبوط بنانا چاہئیے تھا آپ نے اپنی غلط پالیسی اور روش سے اس جنگ کو شہروں سے تو فارغ کر ہی دیا اب پہاڑوں میں بھی آپ کی وہ موجودگی اور طاقت نہیں رہی جو شروعاتی ادوار میں تھی۔ اس کا جواب دشمن پر ملبہ ڈال کر دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو اپنے آپ میں سب سے بڑا “جھوٹ” ہے۔ اس کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ دشمن نے آپ کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا آپ نے اپنے لوگوں کو اپنے خلاف کرکے اپنے نقصان کا سامان پیدا کیا۔
تو تک خضدار مزاہمتی تنظیم کا گڑھ تھا جہاں پر کمانڈری کی ذمہ داریاں ایک نا اہل اور نابلد شخص کے سُپردتھیں۔ وہاں سے دشمن فوج نے نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں نے آپ کے خلاف جاکر آپ کو وہاں سے بے دخل کیا۔ وہاں قابض پاکستانی آرمی نے نہیں بلکہ شفیق مینگل نے کیمپ بناکر آپ کے لئے پورا علاقہ ایک نوگو ایریا میں بدل دیا، شفیق مینگل کو وہاں پر پوری طرح سے کُمک علاقے کے لوگوں سے حاصل تھی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں اسی طرح مکران میں بھی تمام کے تمام ڈیتھ اسکواڈ آپ ہی کی دین ہیں اور اس حوالے سے ایک ایک کردار کو لیکر آپ کا رویہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ثابت ہے کہ آپ کی غلط روش کی بدولت یہ دن قوم کو دیکھنے پڑے۔
اندرونی طور پر قومی تحریک کو جس ڈگر پر چلایا گیا وہ سب کے سامنے ہے اور آج اس کے نتائج بھی قوم کے سامنے ہیں۔ کون کون سے بلنڈرز کئے گئے اگر چیدہ چیدہ ان کی تفصیل میں جایا جائے تو یہ تحریر کبھی ختم ہی نہ ہو۔ یہ تو بلوچ نوجوانوں کے خلوص کی انتہا ہے کہ یہ تحریک اب تک چل رہی ہے ورنہ ہمارے ارباب اختیار نے تو ایسی کوئی کسر نہیں چھوڑی جو تحریک سلامت رہتی۔ منشیات کی لوٹ مار اور اُسی منشیات کی لوٹ میں کئی بلوچوں کا قتل ہو کہ مخبری کے نام پر بے گناہوں کو ذاتی اختلافات کی بنیاد پر راستے سے ہٹانا، ذاتی طاقت بڑھانے کے لئے بھرتی کی ریس میں ریاستی لوگوں کو تنظیموں میں شامل کرنا ہو کہ دوسری تنظیموں کو سازشوں کے ذریعے تھوڑنا، اپنے ہی لوگوں کو اختلاف رکھنے پر قتل کرنا ہو کہ اغواء برائے تاوان کی وارداتیں، سازشیں کرکے دوسری تنظیموں کو اپنے تابع بنانے کی داستانیں ہوں کہ قومی تحریک کو کلاسوں اور طبقوں میں تقسیم کرکے کمزور کرنا اور پاکستانی بیانئے کی بنیاد کو بڑھاوا دینا، بلوچ قومی تحریک کو ایران کے ہاں گروی رکھنے تک یہ سب اندرونی خامیاں ہیں جو قومی تحریک کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یہ تو ہوئے اندرونی مسائل اگر اسی طرح بیرونی مسائل پر بات کریں تو وہاں پر بھی ہم نے ایسی کوئی کسر نہیں چھوڑی جس سے ہم اپنی تندرست قومی تحریک کو کمزور ہونے سے بچا پائیں۔
بی ایل اے جیسی تنظیم کو دو دفعہ دو لخت کیا گیا، اور ان دونوں واقعات میں بی ایل ایف کے ڈاکٹر اللہ نظر ماشاء اللہ سے پیش پیش رہے۔ یو بی اے کے وجود میں آنے کی تمام داستانیں تو ڈاکٹر اللہ نظر کے حالیہ رفیق بشیر زیب نے اپنی تحریر میں لکھ دی ہیں۔ اب اس دفعہ جب بشیر زیب نے اپنے ٹولے کے ساتھ جو کرتوت دہرا کر ایک دفعہ پھر بی ایل اے کو تقسیم کیا وہاں بھی ڈاکٹر اللہ نظر کا کردار کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ چونکہ بی ایل اے کو دو لخت کرنے کے بعد ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی جہاں ہر بلوچ قوم دوست کے ہونٹوں پر سوال ابھر رہے تھے تو جناب نے جنگ تیز کرنے کے نام پر ایک نیا محاذ تشکیل دیا جس نے بیرونی دنیا میں بلوچ قومی تحریک کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ فدائی حملوں کے نام پر جو عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑائی گئیں وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں جہاں بلوچ قومی تحریک کو ان مہربانوں نے پابندی اور عالمی دہشت گردی کی مہر کے دھانے پر لا کھڑا کردیا۔ اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف بلوچ قومی تحریک اس وقت سسک رہی ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ یہ کسی ظلم و جبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بیوقوفیوں اور نااہلیوں کے سبب ہوا۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ دشمن کو سمجھ ہی نہ آتی کہ وہ اس طاقتور تحریک کا مقابلہ کیسے کرے ہم نے وہ تمام سامان دشمن کو اپنے ہاتھوں سے مہیا کیا کہ آؤ اور ہمارا بیڑہ غرق کردو۔
حال ہی میں ایک پوری ناول شائع کردی کہ خاران سے لیکر قلات کا سفر اور اس سفر میں ملاقاتیں۔ ان ملاقاتوں میں جواز نما جھوٹ کہ جی بلوچ کا مسئلہ جنگ سے ہی حل ہوگا اور ہم نے اسی جنگ کو تیز کرنے کی غرض سے بی ایل اے کو تھوڑ کر دو لخت کردیا۔ اب کوئی ہمیں یہ سمجھا دے جس کو آپ تیزی کا نام دے رہے ہیں دنیا اس کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ آپ کی اسی تیزی کو امریکہ نے دہشت گردانہ کاروائی کا نام دیکر آپ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس عمل کو دہرایا۔ ہندوستان کا بھی یہی خیال ہے، چین اور پاکستان تو پہلے ہی سے آپ کے دشمن ہیں تو اب آپ کے پاس رہ کیا گیا؟ آپ نے اُسی ناول میں کہا کہ ہم ایران کو ایک قابض تصور کرتے ہیں اور ہماری جدوجہد نوری نصیر خان کے تشکیل کردہ بلوچستان کی سرحدوں کے لئے ہے، بہت خوب مگر اس طرح سے آپ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں جہاں ایک طرف انفرادی طور پر آپ یہ موقف جاری کردیتے ہیں تو دوسری جانب “براس” کے اتحادی ڈھکوسلے میں آپ بی ایل ایف اور بیبگر ٹولے کے اتحادی ہیں جو یکسر مختلف خیال رکھتے ہیں۔ اب ایک اتحادی ایران کے ساتھ لڑنے پر یقین رکھے جبکہ دیگر اتحادی تنظیمیں ایران کو اپنا دوست قرار دیں پھر اس اتحاد کی قانونی اور اخلاقی کیا حیثیت رہ جاتی ہے وہ بھی کوئی ہمیں سمجھا دے۔ اس طرح کے دوغلے پن سے آپ اپنے جھوٹ خود دنیا کے سامنے لا ر ہے ہیں اور اپنے اوپر مذاق اُڑنے کا بندوبست کررہے ہیں۔
کردوں کی مثال، طالبان کی مثال مگر یہ نہیں بتاتے کہ بھئی انہی کردوں کو اپنے مفادات کی خاطر ایک دفعہ مدد فراہم کی گئی اور مفادات پورے ہونے پر ترکی کی مقتل گاہوں کے حوالے کردیا گیا۔ طالبان سے مذاکرات تو ہوئے مگر ان کا نتیجہ تاحال نہ نکل سکا۔ اوّل تو آپ کردوں اور طالبان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو دوئم اگر آپ اتنی طاقت حاصل کر بھی لیں تب بھی آپ کی جنگ ایک ریاست کی تشکیل نو کی جنگ ہے۔ ایک سانس میں آپ کہتے ہیں کہ امریکہ کی پابندی ہم پر کوئی اثر نہیں کرسکتی اور دوسری ہی سانس میں آپ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس طاقت ہوگی تو امریکہ بھی ہماری بات سُنے گا۔ پہلے آپ اپنا مقصد واضح کریں کہ اگر امریکہ کی ناراضگی آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تو آپ اس کو راضی کرنے کی تگ و دو میں وقت کیوں صرف کر رہے ہو؟ کردوں کے ساتھ ساتھ تاملوں کی عاقبت کے حوالے سے بھی چار الفاظ ادا کرلیں طالبان کے ساتھ ساتھ چیچنوں کی بھی مثالیں دیں۔ کردوں اور طالبان کے معاملے میں تو امریکہ اور مغرب کو براہ راست ان کی ضرورت پڑی کیونکہ شام کی جنگ میں امریکا ایک فریق بنا اور طالبان کے معاملے میں بھی فریق امریکہ ہی ہے آپ کے معاملے میں ایسی کونسی حکمت ہوگی جو آپ کے ساتھ امریکہ کے مفادات اس قدر ہم آہنگ ہونگے جو وہ آپ کو مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھا دے؟
اس وقت آزادی کی تحریکوں کے لیے سب سے اہم اور ضروری شے یہ ہے کہ آپ نے اپنی تحریک کو عالمی طاقتوں کی ضرورت بنانا ہے نا کہ ان کے لیے سر درد۔ آپ جس ڈگر پر چل رہے ہیں وہ کسی بھی پیمانے سے مفادات سے ہم آہنگ نہیں اور نہ ہی کسی بھی طرح سے آپ ان کی ضرورت کے پیمانے پر پورا اتر رہے ہیں بلکہ دنیا کی نظر میں آپ تنازعات اور مغربی نفرت کے شکار ایران کے پروکسی کی حیثیت اختیار کر چُکے ہیں۔ دنیا کے زیادہ تر معتبر جرائد، اخبارات و میڈیا آپ کو حزب اللہ طرز کی ایک تنظیم کے نام سے متعارف کررہے ہیں۔ آپ کو ایک قومی تحریک آزادی کے بجائے ایک ایرانی کرائے کی تنظیم کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ شیعہ شدت پسند تنظیم کے نام سے جانے جاتے ہیں اور آپ نسلی شدت پسند تنظیم کے نام سے جانے جارہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی لیکن کیا دنیا بھی اسی زاویے سے سوچ رہی ہے؟ دنیا ہر “پبلک پلیس” پر ہوئے حملے کو جنگی جُرم کے زُمرے میں لیتی ہے اور آپ کے جنگ تیز کرنے کی تدبیریں محض “پبلک پلیس” پر ناکام حملوں تک محدود ہیں۔
کامیابی اور ناکامی کی تشریح سے بھی جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر چیدہ چیدہ آپ کے طالبان طرز کے حملوں کی تفصیل میں جایا جائے تو ایک دفعہ پھر اس پر اس تحریر کے ختم ہونے کے امکانات کم ہو جائیں گے لہٰذا زیادہ تفصیل میں جائے بغیر آپ ہی کی بات کو آگے لے کر چلتے ہیں۔ آپ نے کامیابی اور ناکامی کے جو دو پیمانے بتائے ہیں اسی پر بات کرتے ہیں۔ اگر شہید ریحان والے حملے کی ویڈیو ہی دیکھ لیں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں اس طرح کے حملے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ جہاں آپ ویڈیو بنا سکتے ہیں تو ریموٹ حملہ کیوں نہیں کرسکتے؟ جہاں آپ ویڈیو بنا کر بحفاظت اپنے ٹھکانوں تک پہنچ سکتے ہیں وہاں فدائی حملہ ہی کیوں آخری حل ہوتا ہے؟ فدائی حملہ کرکے آپ نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ آپ کمزور منصوبہ بندی، ٹریننگ کی کمی اور غلط ٹارگٹ پر غلط حملہ کررہے ہیں اور اوپر سے ایک ایسے نوجوان کو کھو رہے ہیں جو بلوچ قومی تحریک میں شہید ہونے کے فلسفے کے ساتھ میدان میں اترا ہے۔ اسی طرح اگر بے گناہ اور عام شہریوں کے مارنے کی بات کی جائے تو کونسلیٹ میں وہ پشتون باپ بیٹے جو ویزہ سیکشن میں آئے ہوئے تھے اور اسی طرح گوادر ہوٹل کے مقامی ملازمین کونسے گناہ گار تھے جو آپ کی گولیوں کے نشان بن کر مرے؟ اسٹاک ایکسچینج پر بھی ہونے والا حملہ اسی نوعیت کا تھا جہاں موجود چند ہزار لوگ آپ کے براہ راست گناہ گار نہیں اور اگر چاروں مسلح حملہ آور بلڈنگ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے تو کیا وہ وہاں موجود لوگوں کو یرغمال نہ بناتے اور جانے دیتے؟ عالمی قوانین کی رو سے لوگوں کو یرغمال بنانا کس حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے ذرا اس پر تھوڑا سا سوچ لیں شائد کچھ سمجھ آجائے۔
ناول نُما تحریر جس کو خاران سے قلات کے سفر کا نام دیا گیا مگر غالب کو اس جنت کی حقیقت بھی معلوم ہے۔ بس دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے کے مصداق ایک دفعہ پھر جھوٹ اور رومانس سے بھرے خیالات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور لوگوں کو جذبات اُبھار کر اپنے ساتھ ملانے کی ایک کوشش کی جارہی ہے۔ جنگ سے کوئی انکاری نہیں لیکن اگر جنگ قومی ہے تو اولیت بھی قومی مفادات کو حاصل ہونی چاہئیے۔
اسی ناول نما تحریر میں لفظ چیف بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک انگریزی لفظ ہے جس کے مراد سربراہ کے ہوتے ہیں لیکن اسی زبان میں آخری لفظ کو بدل کر اسی کو “چیپ” لکھا یا پڑھا جاسکتا ہے۔ آپ چیف نہیں بلکہ چیپ ہوسکتے ہیں کیونکہ جس طرح کا آپ کا کردار ہے اس سے “چیپ لیبر” ہی ماخذ ہے۔ نواب مری، بالاچ مری، سنگت حیربیار اور دیگر سے جب “مسلح گوریلا تنظیموں” کی سربراہی کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو انہوں نے کبھی بھی کسی سربراہی کا دعویٰ نہیں کیا مگر یہاں “چیف (چیپ)” کہلوا کر ایسے اترا یا جاتا ہے جیسے کہ وہ واقعی میں اسی کردار کے مالک ہوں۔ اگر آپ پر اعتبار کرکے تمام تر اختیارات اور طاقت آپ کو نہ فراہم کی جاتی تو آپ عقیل پرویز کی طرح نوشکی میں اس وقت “نو گڈُکی” کھیل رہے ہوتے مگر آپ کو قومی مقصد کے لیے ہر طرح سے وسائل فراہم کئے گئے اسی بنیاد پر آپ شب خون مارنے کے قابل ہوئے۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا اور پرکھا جائے تو آپ کی ایک فیصد بھی تخلیق اس قومی تنظیم و تحریک میں نہیں بلکہ آپ کی حیثیت ایک مفت خورے کی ہے۔ مزید یہ کہ آپ کو تنظیم سے بے دخل کیا جا چُکا ہے اور اب آپ بی بگر ٹولے اور اللہ نظر سے مل کر نوجوانوں کو اپنی ذاتی مقصد کے لئے قوم کے نام پر ایک جھوٹے منصوبے پر قربان کررہے ہیں اور لوگوں کو جذباتی کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ آپ کے جھوٹ کی آواز زیادہ زور سے گونجتی رہے اور سچ چھپ جائے مگر جانے انجانے میں آپ کے اپنے منہ سے سچ نکل ہی آتا ہے۔ اس ناول نُما تحریر میں آپ اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ سنگت حیربیار نے فدائی حملوں کی مخالفت کی اس لئے آپ نے اس کو اپنے جھوٹ میں لپیٹ کر جنگ سے دستبرداری کا نام دینے کی ناکام کوشش کی مگر آج سچ بلوچ نوجوانوں کے سامنے ہے کہ کس طرح سنگت حیربیار کا خدشہ درست ثابت ہورہا ہے۔ جس خدشے کی بنیاد پر وہ فدائی حملوں کے خلاف تھے آج بلوچ قومی تحریک اس خدشے کی حقیقت سے آشنا ہورہی ہے کہ کس طرح دنیا آپ کو دہشت گرد کی نظر سے دیکھنے لگی ہے۔ آپ نے اپنی شور غوغا میں سچ کو چھپانے کی کوشش کی مگر سچ پھر بھی سامنے آ رہا ہے۔ آہستہ اور دھیرے ہی سہی مگر سامنے آرہا ہے اور بلوچ نوجوان ایک بار پھر سے دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان، چین، امریکہ، ایران و پاکستان کے حوالے سے کروٹ لیتے حالات کس طرح آپ کو اور ڈاکٹر اللہ نظر کو دفاعی پوزیشن پر لے کر جارہے ہیں جہاں سے آپ ایک دفعہ پھر 360 ڈگری کی قلا بازی کھا کر دوبارہ سچ کی طرف لوٹنے کے بیانات جاری کررہے ہیں۔
یہ غالباً دوہزار دس کی بات ہے جب ڈاکٹر اللہ نظر نے بلوچ قومی تحریک کو ایک الگ ڈگر پر چلانے کی بنیاد رکھی اور آہستہ آہستہ اس قومی تحریک کو ایک اور دشمن ملک ایران کی گود میں ڈال دیا۔ آج دو ہزار بیس مطلب دس سال کے بعد آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے مگر ان دس سالوں میں بلوچ قوم اور قومی تحریک نے کافی کچھ آپ کی وجہ سے کھویا۔ سنگت حیربیار مری اوّل دن سے لیکر آج تک اُسی موقف پر ڈٹ کر اُسی ڈگر پر چل رہے ہیں لہٰذا ان دس سالوں کے نقصانات اور ٹھہراؤ کا حساب اللہ نظر پر قرض رہے گا اور ایک دن قوم کے ہاتھ ہونگے اور اللہ نظر کا گریبان جہاں قوم پوچھے گی کہ ہماری اتنی قربانیوں، دکھوں اور تکلیفوں کو جس طرح آپ نے اپنی ذات کے لئے استعمال کیا اس کا حساب دو۔
دھمکی آمیز بیانات میں ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ خُدا کے بندے آپ نے 1600 بلوچ مخبری کے نام پر قتل کئے، کونسا ثبوت فراہم کیا آپ نے؟ لیکن چلیں آپ کی تسلی کے لئے آپ کا یہ مسئلہ حل کیے دیتے ہیں۔ فوکس نیوز عالمی میڈیا میں معتبر ترین ادارہ ہے جو آپ کو بزریعہ امریکی سابقہ سی آئی اے آفیسر ایرانی پروکسی قرار دے رہا ہے اگر یہ غلط ہے تو یورپی و امریکی عدالتوں میں فوکس نیوز کے خلاف ایک کیس دائر کرلیں اگر آپ نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کردیا تو ان سے ہرجانہ وصول کریں تاکہ قومی جنگ میں وسائل کے کام آسکیں مگر ایک بات یاد رکھیں جھوٹ کو آپ جتنی اونچی آواز میں چلا کر بولیں وہ سچ نہیں بن جاتا اور عالمی رائے عامہ آپ کی جھوٹی چیخ و پکار پر نہیں بنتی بگڑتی بلکہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور تجزیوں و تبصروں سے بنتی ہے اور اس وقت ذرائع ابلاغ کے تمام ادارے آپ کو ایران کی پروکسی گردان رہے ہیں ایسے میں آپ کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے کونسے عوامل ہیں وہ آپ ہی بہتر جان سکتے ہیں۔
کسی پر الزام لگانے، چار گالیاں دینے اور میٹھی گفتگو میں جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش اگر عالمی رائے عامہ بدل سکتی ہے تو یہ عمل اسی طرح جاری رکھیں مگر اگر ان سے عالمی رائے عامہ نے نہیں بدلنا اور آپ کی نجات سچ میں ہے تو اگر وہ دھیما ہی سہی اسی پر گامزن رہیں تاکہ قوم نجات کی طرف بڑھ سکے اور قومی تحریک کامیابی کی جانب، بس ذرا سا کام کرنا پڑے گا آپ کو کہ اپنی ذاتی خُدائی سے نکل کر ایک قومی سپاہی بن کر کام کرنا ہوگا۔
Exit mobile version