ہیمبرگ(ہمگام نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان پہلی ملاقات اور مصافحہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میںجی کے سربراہ اجلاس کے موقعے پر ہوا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان تفصیلی ملاقات بعد میں ہوگی اور دونوں کا کہنا ہے کہ وہ تنازعات کا شکار ہونے والے اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ دیگر مسائل کے علاوہ صدر ٹرمپ اور صدر پوتن کے درمیان ایک بڑا تنازعہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت ہے۔ جی 20 کے اجلاس میں جن امور پر بات ہو گی ان میں موسمیاتی تبدیلی اور تجارت سر فہرست ہیں۔ اس حوالے سے اجلاس سے قبل ہیمبرگ میں بہت بڑا مظاہرہ بھی ہوا ہے جس کا عنوان تھا جہنم میں خوش آمدید۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جرمنی میں جدید ٹیکنالوجی کے صنعتی گڑھ ہیمبرگ میں جی 20 کا اجلاس منعقد کر کے چانسلر انگیلا میرکل یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایک جمہوری معاشرے میں مظاہرے برداست کرنے کے صلاحیت ہونی چاہیے۔ تاہم ان مظاہروں سے جی20 کے سربراہی اجلاس سے منسلک کئی تقریبات متاثر ہوئی ہیں۔ جرمن حکومت کے فیس بُک صفحات پر شائع ہونے والی ایک مختصر ویڈیو میں جی 20 کے دیگر رہنماؤں کی موجودگی میں دونوں حضرات کو ہاتھ ملاتے اور مسٹر ٹرمپ کو مسکراتے ہوئے مسٹر پوتن کے بازو پر تھپکی لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جمعے کو ہی دونوں کے درمیان تفصیلی ملاقات ہو گی جو تیس منٹ یا ایک گھنٹے تک کی ہو سکتی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ اس ملاقات میں دونوں جانب سے اور کون کون اپنے صدر کی معاونت کرے گا۔ اسی طرح یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کس حد تک ذرائع ابلاغ کو اس ملاقات تک رسائی دی جائے اور آیا صدر ٹرمپ اور صدر پوتن صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیں گے یا نہیں۔ اس سے پہلے جب بھی دونوں کی ٹیلی فون پر بات ہوئی، دونوں کے دفاتر کی جانب سے اس گفتگو کا مختصر احوال ذرائع ابلاغ کو جاری کیا گیا تھا۔ ایک بات ہم جانتے ہیں کہ اس سربرارہ اجلاس سے پہلے بین الاقوامی امور پر دونوں حضرات کے خیالات ہمیشہ مختلف رہے ہیں۔ اسی ہفتے جمعرات کو جب صدر ٹرمپ نے پولینڈ میں تقریر کی تھی تو انھوں نے اس میں بھی روس سے کہہ دیا تھا کہ وہ یوکرین اور دیگر ممالک کو تباہ کرنا بند کرے اور ذمہ دار اقوام کی برادری میں شامل ہو جائے۔ جی 20 کے سربراہ اجلاس کے حوالے سے اپنی ترجیحات کے بارے میں مسٹر پوتن نے بھی ایک جرمن اخبار میں جو مضمون لکھا ہے اس میں انھوں نے امریکہ سے کہا ہے وہ روس پر لگائی جانے والی وہ پابندیاں اٹھائے جو 2014 میں روس کی جانب سے کرائمیا کو اپنا حصہ بنانے کے بعد لگائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ مسٹر پوتن نے ماحولیات کے حوالے سے پیرس معاہدہے کی پرزور حمایت کا بھی کہا ہے اور اسے ماحولیات سے متعلق طویل المدت قانون سازی کی بنیاد قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ امریکہ کو پہلے ہی پیریس معاہدے سے نکال چکے ہیں۔ اگرچہ اس مضمون میں مسٹر پوتن نے شام کا زیادہ ذکر نہیں کیا، تاہم یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ شام میں کچھ حکومت مخالف گروہوں کی مدد کر رہا ہے جبکہ ماسکو صدر بشارالاسد کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں شام کے حوالے سے اختلافات پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات موجود ہیں۔