تل ابیب (ہمگام نیوز )مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کو ہفتے کے روز اسرائیل پر تاریخ کے سب سے بڑے راکٹ حملے کی قیمت چکانا ہو گی۔ اس امر کا اظہار ترجمان اسرائیلی وزارت خارجہ نے ’العربیہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔
حماس نے ہفتہ کے روز اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف آپریشن طوفان الاقصی کا آغاز کرنے والا ہے۔ یہ آپریشن بندوق برداروں کے اسرائیل میں گھسنے کے علاوہ راکٹ اور میزائیل حملوں پر مشتمل ہو گا۔
واضح رہے یہ آپریشن یہودی تہوار سماچیت تورات کے موقع پر حماس نے کیا۔ جب لاکھوں یہودی اس تہوار کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے۔ ترجمان لئیور حیات نے نے کہا ہفتے کی صبح اسرائیل پر ’دہشت گرد گروپ حماس‘نے اسرائیل پر پر حملہ کیا۔
یہ حملہ ایک طرح سے کثیر جہتی حملہ تھا۔ کہ اس حملے میں ایک طرف اسرائیل پر راکٹ فائر کئے جانے کے ساتھ ساتھ بندق بردار مسلح افراد بھی اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائیاں کرنی کوشش کرنے لگے۔
ترجمان اسرائیلی دفتر خارجہ نے کہا غزہ سے اسرائیل پر لگ بھگ ایک ہزار راکٹ فائر کئے گئے ہیں اور اسرائیل میں یروشلم سے لے کر تل ابیب تک ہر شہر میں راکٹ فائر کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسرائیل پر ڈرون حملے بھی ہونا شروع ہو گئے۔
اسی دوران حماس نے شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا اور کئی فوجیوں کو یرغمال بھی بنا لیا گیا۔ ترجمان کے مطابق حماس نے فوجیوں کے علاوہ کئی سولینز کو بھی یرغمال بنایا ہے۔
اسرائیلی ترجمان نے مزید کہا، اسرائیل حماس کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ اسرائیل اپنی سرحدوں کا دفاع کرے گا۔ ایک سوال کے جواب میں حیات نے کہا، اسرائیل نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ حماس کی مذمت کرے۔ یہ مذمت شدید انداز میں کی جائے۔
جہاں تک اسرائیل کی طرف سے حماس کو جواب دینے کی بات ہے تو ہم اس حملے میں شریک ایک ایک دہشت گرد کو نشانے پر لیں گے اور وہ سب کچھ کریں گے جو ہم کر سکتے ہوئے۔ حماس کو اس حملے کی قیمت چکانا پڑے گی اور ہر اس کو قیمت چکانا پڑے جو اس حملے کا کسی بھی طرح حصہ بنا ہے۔ اس میں ایران بھی شامل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اسرائیلی ترجمان نے کہا یہ ایک بلا اشتعال کیا گیا حملہ ہے اور بلا اشتعال حملہ کرنے کا مطلب ایک جنگ شروع کرنا ہے۔ اس جنگ کی ساری ذمہ داری حماس اور اس کے لیڈروں پر عائد ہوتی ہے۔
ترجمان نے مزید کہا ہفتے کے روز اسرائیلی ایک ایسی قوم کے طور پر سامنے تھے جو قتل وغارت گری کی وجہ سے سخت صدمے سے دوچار ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کا نشانہ سویلین یہودی تھے۔
ایک اور سوال پر اسرائیلی ترجمان نے کہا ہماری حکومت اس وقت حملے کا جواب دینے کے ہر ممکن طریقے پر غور کر رہی ہے۔ اگلے چند گھنٹوں میں ہر چیز واضح ہو جائے گی۔