ہمگام نیوز ڈیسک: فلسطینی اسلامی مزاحمتی[حماس] کے صدر دفتر کو قطرسے ترکیہ یا کسی اور جگہ منتقل کرنے کے بارے میں بات چیت کی خبروں کی بازگشت ابھی بھی جاری ہے۔
دوسری جانب تحریک کے رہنماؤں اور ترکیہ کی طرف سے اس معاملے پر مکمل رازداری برتی جا رہی ہے۔
دیگر فلسطینی گروپوں کی جانب سےبھی اس حوالے سے مختلف توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
حماس کے کئی رہ نماؤں نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
دوسری جانب تحریک فتح سے تعلق رکھنے والے فلسطینی ذرائع نےکہا ہے کہ حماس درحقیقت قطر کو چھوڑ دے گی۔
اس حوالےسے حماس اندرونی اور بیرونی تنازعات کا شکار ہے۔
دریں اثنا فتح کے ترجمان منیر الجاغوب نے میڈیا کو بتایا کہ “حماس اور اس کے رہ نماؤں کو ترکیہ سمیت دیگر ممالک میں منتقل کرنے سے قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مستقبل کے کسی بھی معاہدے کو نقصان پہنچے گا”۔
انہوں نے زور دیا کہ “واشنگٹن مصر اور قطر کی ثالثی کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کو یقینی بنانا چاہتا ہے”۔
بعض ذرائع نے توقع ظاہر کی ہےکہ تحریک دوحہ سے نکلنے کی صورت میں ترکیہ نہیں جائے گی بلکہ اس کا اگلا مرکز یمن میں ہوگا اور یہ حوثیوں کے زیرکنٹرول علاقوں میں اپنا مرکز قائم کرے گی۔
اسی دوران کچھ یمنی حوثی رہ نماؤں نے ٹویٹ کیا کہ یمنی سرزمین پر حماس کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ دیگر فلسطینی دھڑوں کے رہنماؤں کی موجودگی کا خیرمقدم کیا جائے گا۔
اس تناظر میں عرب فاؤنڈیشن فار ڈویلپمنٹ اینڈ اسٹڈیز کے صدر سٹریٹجک ماہر سمیر راغب نے کہا کہ “یمن حماس کے رہنماؤں کے لیے قریب ترین سٹیشن ہے کیونکہ وہاں حوثیوں کے علاقے ہیں جو مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں اور امریکی اور اسرائیلی موقف کو مسترد کرتے ہیں‘‘۔
انہوں نے میڈیا کو دیے گئے بیانات میں حماس کے ترکیہ منتقلی کے امکانات کو مسترد کردیا۔ حماس اور اس کے رہ نما ترکیہ جائیں گے تو انقرہ کے نیٹو اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور اس کے مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔
حماس سمیت فلسطینی لیڈرشپ کو ترکی نے بھی زور دیا کہ وہ اتحاد اور یکجھتی کریں ورنہ انکا پروگرام ناکام ہوگا کیونکہ آج کی دنیا میں تقسیم در تقسیم کو دنیا اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہے