سه شنبه, اپریل 22, 2025
Homeخبریںخطے میں ایرانی نفوذ تیزی سے کم ہورہا ہے : ایرانی حکومتی...

خطے میں ایرانی نفوذ تیزی سے کم ہورہا ہے : ایرانی حکومتی حلقے

(ہمگام نیوز ) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” نے انکشاف کیا ہے کہ ایرانی ذمے داران اس بات پر حیران ہیں کہ خطے میں اُن کا نفوذ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ اسی طرح وہ سمجھتے ہیں کہ لبنان اور عراق میں جاری مظاہرے تہران کے نظام کے لیے ایک وجودی خطرہ ہیں۔ ایرانی ذمے داران کو اس بات کا شدید خوف ہے کہ مذکورہ احتجاج کی لہر ایران منتقل ہو سکتی ہے کیوں کہ ایران کے ابتر معاشی حالات لبنان اور عراق سے ملتے جلتے ہیں۔

اخبار کے مطابق ایران اکثر و بیشتر امریکا، اسرائیل اور خلیجی ممالک کو اپنے امن اور علاقائی نفوذ کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیتا ہے تاہم حالیہ عرصے میں تہران میں حکام نے اپنی تشویش کے دو نئے ذرائع کا اظہار کیا ہے۔ وہ ہیں لبنان اور عراق جہاں پر جاری حکومت مخالف مظاہروں کے بارے میں ایرانی نظام کا خیال ہے کہ ان سے ایران کے مفادات کو اچانک خطرہ لاحق ہو گیا ہے. یہ احتجاج خود ایران کے اندر بھڑک جانے کا بھی امکان پیدا ہو گیا ہے۔

اخبار کا مزید کہنا ہے کہ اگر لبنانی اور عراقی احتجاج کنندگان اپنی حکومتوں کو گرانے اور ایرانی قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات رکھنے والی اپنی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر تہران مالیاتی، سیاسی اور عسکری شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدوں سے محروم ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بدھ کے روز اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عراق اور لبنان میں کئی ہفتوں سے جاری عوامی احتجاج اور مظاہرے محض ہنگامہ آرائی اور بلوے کی کارروائیاں ہیں جن کی باگ ڈور امریکا، اسرائیل اور خطے کے بعض ممالک کے ہاتھوں میں ہے۔

ایران نے عراق کے ساتھ سرحد پر اپنی کئی گزر گاہوں کو تاجروں اور مسافروں کے لیے بند کر دیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ لبنان اور عراق میں احتجاجی مظاہروں کو ایرانی میڈیا میں منفی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ ایران میں قدامت پرست ذمے داران اور تبصرہ نگاروں نے لبنان اور عراق میں جاری عوامی تحریکوں کو “فتنہ” قرار دیا ہے۔ یہ وہ ہی اصطلاح ہے جو مذکورہ افراد نے 2009 اور 2017 میں ایرانی حکومت کے خلاف مقامی سطح پر ہونے والے مظاہروں کے لیے استعمال کی تھی۔

امریکی اخبار کے مطابق جمعرات کے روز عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے استعفا پیش کرنے کا امکان سامنے آیا۔ دو روز قبل لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ عراق اور لبنان میں جاری احتجاج جلد اختتام پذیر ہونے والا ہے۔

اخبار نے مزید لکھا ہے کہ خامنہ ای اپنے خطاب میں بتا چکے ہیں کہ انہوں نے سیکورٹی فورسز کو چوکنا رہنے کے احکامات دے دیے ہیں تاکہ عوامی احتجاج کا مقابلہ کیا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تہران احتجاج سے نمٹنے کے لیے مختلف تدابیر کا تجربہ کرے گا۔

لبنان میں ایران کا ہدف یہ ہے کہ انقلابی تحریک اور تہران نواز ملیشیاؤں میں انقسام پیدا کیا جائے۔ اس لئے سیاسی ادارے کے مکمل سقوط کی کال کی عدم حمایت کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

حزب اللہ کا سربراہ حسن نصر اللہ پہلے ہی اپنے حامیوں سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ سڑکوں پر جاری عوامی احتجاج سے دور رہیں۔
ایران نے لبنانی احتجاج کنندگان کو منتشر کرنے کے لیے انہیں ڈرانے اور دھمکانے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔

منگل کے روز حزب اللہ کے ہمنوا عناصر کے ایک گروپ نے لبنانی درالحکومت بیروت کے وسط میں احتجاج کے مرکزی ٹھکانے پر چھاپا مار کارروائی کی۔ گروپ نے مظاہرین پر دھاوا بول کر ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
عراق اس وقت ایران کے لیے زیادہ پیچیدہ چیلنج کی شکل میں سامنے آیا ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے حال ہی میں بغداد کا دورہ کیا تا کہ احتجاج کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ عراق کے جنوبی شہروں میں ایران نواز ملیشیاؤں کے مراکز موجود ہیں۔

احتجاجی مظاہروں کے دوران عراقیوں کی جانب سے ایران پر اعلانیہ تنقید سامنے آئی۔

انہوں نے ایران کا پرچم نذر آتش کیا، اپنے ملک سے ایران کے کوچ کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے بازی کی، علی خامنہ ای کے پوسٹروں کو برباد کیا اور ایرانی پاسداران انقلاب کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے مراکز پر حملہ کیا۔

دوسری جانب عراق میں الصدری گروپ کے سربراہ مقتدی الصدر نے ایران پر نکتہ چینی کرتے ہوئے احتجاج کنندگان کی حمایت کا اظہار کیا۔ الصدر منگل کے روز نجف شہر میں مظاہرے میں پہنچے تھے۔ اس موقع پر اُن کے کندھوں کے گرد عراقی پرچم لپٹا ہوا تھا۔ الصدر نے عراقی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ایران کے سخت گیر سیاست دانوں اور تبصرہ نگاروں نے اعلانیہ طور پر خطے میں شیعہ قوتوں کے درمیان تنازع بھڑکانے اور انہیں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مظاہرین کو مغرب کا ہمدرد قرار دیا۔

دوسری جانب قدامت پرست رجحان کے حامل ایرانی اخبار کیہان کے چیف ایڈیٹر اور علی خامنہ ای کے مشیر حسین شریعتمداری نے اپنے ایک کالم میں عراقی اور لبنانی مظاہرین پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی اور غیر ملکی سفارت خانوں پر حملہ کر کے قبضہ کر لیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز