واشنگٹن( ھمگام نیوز ) میونخ میں ایک امریکی جنرل نے کہا ہے کہ اسلحے کی مستقل دوڑ کی وجہ سے خلا میں چند سالوں میں بنیادی تبدیلی آ گئی ہے ۔ مستقبل میں خلا میں ہجوم بڑھنے جارہا۔ ۔ انہوں نے کہا کہ چین امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

امریکی فضائیہ میں خلائی آپریشنز کے کمانڈر جنرل بریڈلی چانس سالٹزمین نے ہفتہ کو میونخ سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر کہا کہ ہم اپنے سٹریٹجک مخالفین کے تیار کردہ ہتھیاروں کی ایک پوری رینج کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ خطرہ عوامی جمہوریہ چین اور روس سے بھی آتا ہے۔ انہوں نے کہا بنیادی طور پر خلا میں مقابلہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے آگے بڑھنے کے طریقے کو ہتھیاروں کی رینج کے ذریعہ سے تیار کرنا ہے ۔ چین اور روس نے یہ طریقہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے یا وہ پہلے ہی یہ طریقہ استعمال کر چکے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے گائیڈڈ توانائی کے ہتھیاروں، اینٹی سیٹلائٹ میزائلوں اور دیگر مداری انٹرسیپٹرز کا ذکر کیا۔

سالٹزمین کے یہ ریمارکس سپر پاورز کی فوجی خلائی سرگرمیوں کے پیش نظر نسبتاً متوقع تھے۔ اس بیان پر دنیا بھر میں بات ہو ئی ہے۔ خاص طور پر ہفتے کو میونخ میں امریکہ اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی کشیدہ ملاقات کے بعد بیان اہمیت اختیار کرگیا۔

امریکی وزیر خارجہ بلینکن نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ چینی غبارے کے معاملہ ایک غیر ذمہ دارانہ عمل تھا جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایسے اقدام کو دہرایا نہیں جا سکتا۔ وانگ یی نے واشنگٹن کی طرف سے طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی مذمت کی ۔

واضح رہے خلا میں اسلحے کی دوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔1985 میں امریکی محکمہ دفاع نے ایک تجربے کے دوران ایک سیٹلائٹ کو تباہ کرنے کے لیے ایک میزائل کا استعمال کیا تھا۔اس کے بعد سے امریکی حریفوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ان میں بھی وہی صلاحیتیں ہیں۔چین نے 2007 میں اور بھارت نے 2019 میں ایسا ہی کیا تھا۔

2021 کے آخر میں روس نے اپنے ایک سیٹلائٹ کو زمین سے داغے گئے میزائل سے تباہ کر دیا۔ اسے طاقت کا مظاہرہ سمجھا گیا اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے اسے غیر ذمہ دارانہ رویہ قرار دیا تھا۔

ایسے سیٹلائٹس جو بموں اور خلائی جہازوں سے لیس ہوسکتے ہیں جو لیزرز کو فائر کرسکتے ہیں اب سائنس فکشن کا تصور نہیں ہے۔ جنرل سالٹزمین نے کہا کہ ہمارے مخالف ہمیں نشانہ بنانے اور اپنے ہتھیاروں کی حد کو بڑھانے کے لیے خلا کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ممالک خلا میں اپنی عسکری سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ خفیہ ہو گئے ہیں لیکن یہ دوڑ 2019 میں امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کو خلائی فورس بنانے کی سطح پر پہنچ گئی۔ ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کا خیال ہے کہ روس اور چین میں اس میدان میں امریکہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

جنرل سالٹزمین نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ واشنگٹن اس میدان میں مختلف ہو گا۔ اعلیٰ عہدے پر فائز امریکی افسر نے مزید کہا کہ یوکرین کے تنازع نے آج اور آنے والے کل کی جنگوں میں بھی خلا کی اہمیت کو یاد دلا دیا ہے۔ جدید لڑائیوں میں خلاء کی اہمیت ہے۔ خلا میں جائے بغیر کے سائبر نیٹ ورکس اور دیگر ذرائع سے خلا سے حملہ کرنا بھی ممکن ہے۔

سالٹزمین کے حلقوں نے فرانسیسی پریس ایجنسی کو بتایا کہ امریکی جنرل نے ابھی تک اپنے روسی اور چینی ہم منصبوں کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی ہے جبکہ میونخ میں انہوں نے ناروے کے وزیر دفاع کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ اور گول میز کے کام میں حصہ لیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خلا مستقبل میں “زیادہ سے زیادہ ہجوم” کا مشاہدہ کرے گا۔ لہذا نئے بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعہ قائم کردہ قواعد کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ معاہدے تکنیکی ترقی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے ہیں۔