شال (ہمگام نیوز) جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان طویل عرصے سے غیر آئینی اقدامات، جبری گمشدگیوں اور ظلم و بربریت کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ روزانہ تعلیمی اداروں، دفاتر، کلینکس اور گھروں کی چادر و چار دیواری کی حرمت پامال کرتے ہوئے نوجوانوں کو جبری طور پر حراست میں لے کر نامعلوم مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔ ان روشن چراغوں کو مہینوں اور سالوں تک اندھیری کوٹھڑیوں اور سیاہ زندانوں میں قید رکھا جاتا ہے۔
معزز صحافی حضرات!
آواران بیدی کے رہائشی اور ڈی ایچ کیو ہسپتال آواران کے آپریٹنگ تھیٹر اسسٹنٹ، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، یکم جون 2024 کو جبری گمشدگی کے شکار بنے۔ انہیں ایف سی اور ریاستی خفیہ ایجنسیوں نے ان کے کلینک آواران نوندڑہ سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر بندوق کے زور پر اور زبردستی اپنے ساتھ لے گئے اور اس دن سے آج تک عبدالحئی بلوچ لاپتہ ہیں اور ہمیں انکی کوئی خیر خبر نہیں دی جارہی۔
معزز صحافی حضرات!
یہ صرف آج کا معاملہ نہیں ہے بلکہ آواران جیسے پسماندہ علاقے میں روزانہ کی بنیاد پر گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں، جہاں خواتین، بچوں اور بزرگوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، اور ان کے پیاروں کو انکے آنکھوں کے سامنے جبراً اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے۔ آواران ڈی ایچ کیو ہسپتال کے سٹاف کو بھی مسلسل غائب کیا جاتا رہا ہے، لیکن حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور نہ ہی اس کے سدباب کے لیے کوئی قدم اٹھا رہی ہے، بلکہ حکومت وقت آج بھی غفلت کی نیند سو رہی ہے۔
معزز صحافی حضرات!
اگر حکومت کی جانب سے یہی خاموشی برقرار رہی تو ڈاکٹر عبدالحئی کے اہلخانہ کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔ اب ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور ہم مزید اپنی اس کربناک و اذیت ناک زندگی اور ارباب اختیار کی خاموشی کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے میں، میں ڈاکٹر عبدالحئی کی ہمشیرہ، اس پریس کانفرنس کی توسط سے حکومت وقت اور ذمہ داران کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں صرف 10 دن تک انتظار کروں گی۔
اگر ان دس دنوں کے اندر میرے بھائی بازیاب نہ ہوئے تو مجبوراً ڈی ایچ کیو ہسپتال آواران کو تالا لگا کر اس کے سامنے دھرنا دیا جائے گا، اور یہ دھرنا تب تک جاری رہے گا جب تک میرے بھائی، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، بازیاب نہیں ہو جاتے۔ اگر اس دوران ہمیں کسی بھی قسم کا نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر ہوگی۔