زاہدان ( ہمگام نیوز) اطلاعات کے مطابق 1 جنوری سے شروع ہونے والی اور آج 4 جنوری تک جاری رہنے والی سیکورٹی فورسز اور قابض ایرانی آرمی کی بے بے تحاشہ چھاپوں اور گرفتاریوں کے بعد 100 سے زائد بلوچ شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
گرفتاریوں کی حد کے پیش نظر اب تک 21 گرفتار شہریوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔
1- “علی اکبر کبدانی ولد لعل محمد، عمر 19 سال
2_ محمد براہوی
3- الیاس ریگی پور کریمی (براہوئی)
4_ نعمت اللہ سرگلزئی
5_علی براہوی
6- یاسین ارباب، عمر 18 سال
7- بلال (یاسر) توتازہی، عمر 17 سال
8- احسان ایدون، عمر 14 سال ک
9- بنیامین کوہکان ولد حامد رضا، عمر 16 سال
10_ الیاس کوہکن ولد عمر رضا عمر 19 سال
11_ محمد گورگیج، عمر 18 سال
12- اسحاق ریگی ولد محمد، عمر 23 سال
13_ کریم کشانی۔
14_ سعید ( فیملی نامعلوم)
15_ احسان سرگلزئی
16_ منصور سارانی
17_ احسان رخشانی ولد عبدالقادر، عمر 17 سال
18- مہدی ناروئی، عمر 20 سال
19_ عارف (فیملی نامعلوم)
20- عزیز شہ بخش ولد مہیم
21_ عبدالخالق شہ بخش
گزشتہ 72 گھنٹوں میں یہ ماورائے قانون گرفتاریاں زاہدان شہر کے مختلف علاقوں سے کی گئی ہیں جن میں بازار مشترکہ ، کوثر اسٹریٹ، بعث ، چلڈرن پارک، سید احمد پارک، شیرآباد، کریم آباد، کشاورز اسٹریٹ ، سیدک ولیج وغیرہ شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اور عینی شاہدین کے مطابق قابض ایرانی فوج اور سیکورٹی فورسز نے زاہدان میں شہریوں اور نوجوانوں کو پرائیویٹ کاروں اور بسوں کا استعمال کرتے ہوئے گرفتار کیا ہے اور فائرنگ کی ہے۔
سرکاری میڈیا نے گرفتار افراد کو “ٹھگ، چور ، انتشار پھیلانے والے، مسلح ڈاکو، غیر ملکی شہری اور اینٹی سیکیورٹی ٹیم” کے طور پر متعارف کرایا ہے، جب کہ ان افراد میں زیادہ تر نوعمر اور نوجوان ہیں جو کہ عام شہری ہیں اور ان میں سے بہت سے اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھے، جبکہ افراد کو ان کے دکانوں اور کارخانوں میں کام کرتے وقت گرفتار کیا جا چکا ہے ـ
واضح رہے کہ قابض ایرانی آرمی اہلکاروں نے اسی وقت فائرنگ شروع کردی جب زاہدان میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری ہوئی تھی جس سے کم از کم ایک شخص زخمی ہوگیا تھا۔
خبر لکھے جانے تک اس زخمی شہری کی شناخت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
سلامتی کونسل کے سابق رکن اور ساؤتھ ایسٹرن آرمی کور کے کمانڈر محمد کرمی کے گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بلوچ شہریوں کی گرفتاری اور جبر میں اضافہ ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح کی گرفتاریوں سے انقلاب کی آواز کو خاموش کرنا ہے۔اور بلوچستان میں احتجاجی مظاہرے روکا جا سکتا ہے ـ