واشنگٹن(ہمگام نیوز ) غزہ میں ایک طرف اسرائیل کی آٹھ ماہ سے جاری پرتشدد جنگ فوری طور پر روکے جانے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف قطر،مصر اور امریکہ کی ثالثی کے ساتھ حماس اوراسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی بات چیت بھی جاری ہے۔

امریکہ سمیت 17 ممالک کی حمایت

امریکہ اور متعدد ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں حماس اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیےایک دوسرے کو رعایت دیں اور لچک کا مظاہرہ کریں۔

وائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ واشنگٹن جنگ بندی کے معاہدے کی حمایت کرتا ہے اور مجوزہ تجویز کے مطابق قیدیوں کے تبادلے کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ سمیت 17 ممالک نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی تجویز کی حمایت کی تصدیق کی ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان کسی ایسے معاہدے تک پہنچنے کے امکان کے حوالے سے ابہام اور ہچکچاہٹ بر قرار ہے۔

تاہم امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے گذشتہ ہفتے اعلان کردہ اس تجویز کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ میں ڈیوڈ اگنٹیئس کے ایک مضمون کے مطابق مذاکرات کاروں (قطر، مصر اور امریکہ) نے بہ ظاہر فلسطینیوں کو ایک غیر مطبوعہ دستاویز پیش کی، جس میں تجویز یا جنگ بندی پر عمل درآمد شروع کرنے کے بارے میں کچھ نکات واضح کیے گئے تھے۔

جبکہ بات چیت سے واقف ایک شخص نے بتایا کہ اس دستاویز میں غزہ میں تنازعے کی وجہ سے ہونے والی تباہی کی مرمت شروع کرنے کا ایک واضح راستہ شامل ہے۔

جنگ بندی کے پہلے دن سے اسرائیل غزہ کی پٹی میں مزید انسانی امداد کے داخلے کی سہولت فراہم کرے گا۔ روزانہ 600 ٹرکوں کے داخلے کو یقینی بنایا جائے گا جن میں ایندھن سے بھرے50 ٹرک بھی شامل ہوں گے۔ اس تجویز پر عمل درآمد کےلیے بات چیت کی جارہی ہے۔

شمالی غزہ کو ان میں سے 300 ٹرک بھی ملیں گے جب کہ وسطی غزہ پاور پلانٹ کو دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے درکار ایندھن فراہم کیا جائے گا۔

اس تجویز میں یہ بتایا گیا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے مجبور فلسطینیوں کو کس طرح پناہ دی جائے۔ اس لیے کم از کم 60,000 عارضی موبائل گھر اور 200,000 خیمے فراہم کرنے کے لیے کام شروع کیا جائے گا۔ غزہ کے ہر کلومیٹر تک پھیلے ہوئے ملبے کو ختم کیا جائے گا۔ دونوں فریقوں کے درمیان تجویز پر اتفاق ہو جانے کے بعد سول بلڈوزر اور دیگر بھاری مشینری کو غزہ میں داخل کیا جائے گا۔

توقع ہے کہ معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد پورے غزہ میں ہسپتالوں، طبی مراکز اور بیکریوں کی بحالی کا کام شروع ہو جائے گا، جبکہ معاہدے کے بعد کے مراحل کے دوران ان بنیادی خدمات کو برقرار رکھا جائے گا۔

سڑکوں، بجلی، پانی، سیوریج اور مواصلاتی نظام سمیت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے بھی کام آہستہ آہستہ شروع ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ، مصر اور قطر تباہ شدہ گھروں، اسکولوں اور زندگی کی دیگر بنیادی چیزوں کی جامع تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی بھی قیادت کریں گے۔

جنگ کا مستقل خاتمہ

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائیڈن کی جانب سے گذشتہ جمعے کو ظاہر کی گئی اس تجویز کو باضابطہ طور پر منظور کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت ابھی بھی جاری ہے۔

لیکن پس پردہ مثبت بیانات کے باوجود بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت ابھی تک اس تجویز کی منظوری کا باضابطہ اعلان کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔

دوسری طرف حماس معاہدے کے تین مراحل کو آپس میں جوڑنے کے لیے پرعزم ہے تاکہ تیسرا مرحلہ لامحالہ جنگ کے مستقل خاتمے کا باعث بنے، جسے تل ابیب مسترد کرتا ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بدھ کے روز کہا تھا کہ حماس جنگ بندی کے منصوبے کے فریم ورک کے اندر جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی فوج کے انخلاء کا مطالبہ کرے گا۔