دوشنبه, اپریل 21, 2025
Homeخبریںسعودی اورافغان طالبان کے مابین دوری صرف مکہ اعلامیہ نہیں،بلکہ طالبان کا...

سعودی اورافغان طالبان کے مابین دوری صرف مکہ اعلامیہ نہیں،بلکہ طالبان کا ایران کے قریب ہونا ہے

جدہ (ہمگام ویب ڈیسک ) افغانستان میں فریقین کیلئے مستقل جنگ بندی اور پائیدار امن کی خاطر سعودی عرب میں انٹرنیشنل علما کانفرنس منقعد کی گئی۔ جس میں پاکستان کے ایک درجن علما سمیت دنیا بھر کے 57 ممالک سے 108 علما سمیت 200 کے قریب شرکا نے شرکت کی ۔

اس کانفرنس کے دعوت نامے میں افغانستان میں جاری مزاحمتی کارروائیوں کو دہشت گردی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں ملوث افراد کو غیرقانونی مسلح گروہ اور جرائم پیشہ افراد کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔

طالبان کے سب سے بڑے حامی سمجھی جانے والی سعودی حکومت اور افغان عسکریت پسندوں کے درمیان کچھ عرصہ سے تعلقات کشیدہ بتائے جارہے ہیں۔

کابل میں تعینات ایک سعودی سفارت کار نے کچھ عرصہ قبل افغانستان میں جاری مسلح کارروائیوں کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کیا تھا جس پر طالبان کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا تھا۔ خیال ہے کہ سعودی عرب کی ایک عرصے تک مالی معاونت بھی ملتی رہی تھی۔طالبان کی سعودیوں سے ناراضی کی وجہ سعودی عرب کی جانب سے افغانستان میں امن سے متعلق دنیا بھر کے علما کی اپنی نوعیت کے پہلے اجلاس کا انعقاد ہے جس میں پہلے تو لڑائی کے خلاف فتوے کی توقع تھی لیکن اب محض ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

طالبان کی ناراضی کی ایک بڑی وجہ پہلے پاکستان اور بعد میں افغانستان میں وہاں کے علماء کی جانب سے اپنے اپنے ممالک میں لڑائی اور پرتشدد کارروائیوں کو غیراسلامی قرار دینا بھی ہے۔

اس سے خدشہ ہے کہ افغان طالبان کا لڑائی کو جہاد قرار دینے کا جواز چھین لیا جانا ہے۔ یہ طالبان کے لیے یقیناً اب تک کا سب سے بڑا سیاسی واخلاقی نقصان ہوگا۔

تقریباً ساڑھے اٹھ سو الفاظ پر مشتمل اپنے طویل بیان میں طالبان نے افغانستان میں جاری 17 سالہ مزاحمت کو ’جہاد‘ سے تعبیر کیا اور کہا ہے کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے ’جہاد‘ کو فساد کے الفاظ سے پکارے اور نہ وہ ایسا کرنے دیں گے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی کانفرنس کو ان کی ’جائز جدوجہد‘ کی حمایت کرنی چاہیے جیسے کہ وہ پہلے کرتے آئے ہیں۔افغانستان کے طالبان نے شاید پہلی مرتبہ اسلامی ملک سعودی عرب کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ایک سخت بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ وہ ایک اسلامی ملک اور ان کے علما سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ ’کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ امریکہ جیسے حملہ آور کا ساتھ دے گا۔‘ طالبان ہمیشہ سے اپنی مزاحمت کو ’جہاد‘ کہتے آئے ہیں اور ماضی میں کئی اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب اس جہاد کی حمایت بھی کرتے آئے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب جیسا ملک جسے تمام اسلامی دنیا میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے، اگر وہ اس مزاحمت کو اسلامی نہیں کہیں گے تو یقینی طور پر اس سے طالبان کا جو ‘جہادی بیانیہ’ ہے وہ کمزور پڑے گا۔
تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور طالبان کے مابین حالیہ تناؤ کی وجہ صرف ‘جہادی بیانیہ’ کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات بھی ہیں جس میں افغانستان کے اندر ایران کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اور شاید طالبان کا ان کے قریب ہونا بھی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایران اور افغان طالبان میں روز بروز قربت بڑھتی جا رہی ہے جس سے بظاہر سعودی عرب سخت ناراض نظر آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب قطر میں طالبان کا دفتر بن رہا تھا تو اس وقت سعودی عرب نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ طالبان ان کے ملک میں آکر سیاسی دفتر کھولیں اور اس ضمن میں طالبان کا ایک گروپ آمادہ بھی ہوا تھا لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔ افغان طالبان اپنے جاری ‘جہاد’ کے حوالے سے تمام باتوں کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور شاید اس وجہ سے ان کا ردعمل قدرے سخت آیا ہے۔سعودی عرب کے قطر سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں شاید اس وجہ سے تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہونے والی اس علما کانفرنس کے اختتام پر ’مکہ اعلامیہ‘ جاری کیا گیا ہے جس میں افغانستان میں فریقین سے جنگ بندی کر کے براہ راست امن مذاکرات شروع کرنے کو کہا گیا ہے۔

شہزادہ خالد الفیصل نے اس کانفرنس کی سربراہی کی ۔کانفرنس کے اختتام پر او آئی سی کے سربراہ يوسف بن احمد العثيمين کا کہنا تھا کہ یہ اعلامیہ افغانستان میں جاری بحران کے پر امن حل کا شرعی حل پیش کرتا ہے۔

اس اعلامیے میں افغانستان میں موجود گروہوں سے جنگ بندی کر کے تشدد، تفرقے اور بغاوت کے خاتمے کے لیے اسلامی اقدار پر مبنی براہ راست امن مذاکرات شروع کرنے کو کہا گیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ’ہم افغان حکومت اور طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک معاہدہ کریں اور مذاکرات کا آغاز کریں‘۔

شاہ سلمان افغانستان میں قیام امن کے لیے سعودی عرب اور او آئی سی کے اقدام سے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افغانستان میں سلامتی اور استحکام کا نیا باب کھلے گا۔جبکہ ساڑھے اٹھ سو الفاظ پر مشتمل اپنے طویل بیان میں طالبان نے افغانستان میں جاری سترہ سالہ مزاحمت کو اب بھی ‘جہاد’ سے تعبیر کرنے پر بضد ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز