واشنگٹن(ہمگام نیوز ) امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہا ہے۔اس کوشش کا مقصد ایک ‘تبدیلی لانے والے’’معاہدے‘‘ تک پہنچنا ہے، لیکن یہ عمل تنازع فلسطین سمیت دیگر معاملات کی وجہ سے پیچیدگی کا شکار ہے۔
یہ بات امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔انھوں نے ممکنہ معاہدے کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ’’اگرچہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں، لیکن یہ ایک مشکل تجویز ہے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’کسی بھی معاہدے کی تفصیل، مختلف فریقوں کے حل کی تلاش کے حوالے سے، چیلنج والی ہوتی ہے،اس لیے میرا ماننا ہے کہ یہ بہت ممکن ہے، البتہ یہ قطعی طور پر یقینی نہیں ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس سے جو فائدہ حاصل ہوگا، اگر ہم اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یقینی طور پر وہ قابل قدر ہوگا‘‘۔
بلینکن سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا سعودی عرب کے تیل کے پیداوار میں اضافہ نہ کرنے کے حالیہ فیصلے اور اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں متنازع بستیوں کی توسیع پر اصرار کے پیش نظر کوئی معاہدہ امریکا کے لیے سود مند ہوگا تو انھوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کو توقع ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے کسی معاہدے میں امریکا کی تشویش کے متعدد امور پربھی پیش رفت ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدے سے مشرق اوسط میں مزید استحکام آئے گا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو تسلیم کرلیتے ہیں تو خطے بھر میں اس کی گونج بہت طاقتور انداز میں سنائی دے گی۔
امریکی وزیرخارجہ نے کہا’’ہم بار بار اس خطے کی طرف راغب ہوئے ہیں، جب یہ افراتفری کا شکار تھا، جب یہ تنازع کا شکار تھا‘‘۔انھوں نے مزید کہا کہ’’انضمام کے ذریعے بیان کردہ خطہ درحقیقت واحد مثبت‘‘ واقعہ ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ممکنہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان باہمی اختلافات کو حل کرنے کا متبادل نہیں ہو گا اور درحقیقت ہمارے خیال میں انھیں دو ریاستی حل کی جانب بڑھنا اور بالآخر اس کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ نیز یہ کہ سعودی قیادت کے ساتھ ان کی اپنی بات چیت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ (ممکنہ معاہدے میں)’’فلسطینیوں کے لیے ایک اہم جزو‘‘ کو شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔