Homeانٹرنشنلسعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے میں کافی...

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے میں کافی وقت لگے گا:بائیڈن

واشنگٹن( ہمگام نیوز ) اطلاعات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول کے تعلقات استوار ہونے میں ابھی وقت لگےگا۔دونوں ملک اس ضمن میں معاہدے سے بہت دور ہیں اور اس میں امریکا کی جانب سے دفاعی معاہدہ اور سویلین جوہری پروگرام شامل ہوگا۔

انھوں نے یہ بات اتوار کے روز سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔انھوں نے بتایا کہ امریکی حکام دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔

جو بائیڈن نے فرید زکریا کودیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہمیں بات کرنے کے لیے بہت کچھ ملا ہے۔

اسرائیل کے وزیر توانائی نے گذشتہ ماہ سعودی عرب کے سویلین جوہری پروگرام کے تصورکی مخالفت کی تھی جبکہ یہ جوہری پروگرام دونوں ممالک کے درمیان امریکا کی ثالثی میں تعلقات کی تشکیل کا حصہ ہے۔

سعودی عرب نے جوبائیڈن کے گذشتہ موسم گرما میں مملکت کے دورے کے موقع پر اپنی فضائی حدود تمام فضائی کمپنیوں کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔امریکی صدر نے اس فیصلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے اسرائیل سے آنے اور جانے والی پروازوں کی راہ ہموار ہوگی۔

امریکی صدر نے انٹرویو یمن میں مستقل جنگ بندی کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔انھوں نے کہا کہ ہم خطے میں پیش رفت کر رہے ہیں اور یہ اس بات پرمنحصر ہے کہ ہم سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کیا کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’سچ کہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ انھیں اسرائیل سے کوئی زیادہ مسئلہ ہےاور خواہ ہم کوئی ایسا ذریعہ مہیا کریں یا نہ کریں جس سے وہ سویلین جوہری طاقت حاصل کر سکیں اور یا ہم ان کی سلامتی کے ضامن بن سکیں، یعنی میرے خیال میں یہ تھوڑا سا دور ہے‘‘۔

دوسری جانب اسرائیل نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں واشنگٹن اس سے مشاورت کرے گا کیونکہ اس معاہدے سے اس کی قومی سلامتی متاثر ہوگی۔ اسرائیل جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) میں شامل نہیں اور اس کے پاس جوہری توانائی نہیں مگر اس کے بارے میں وسیع پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور وہ مشرقِ اوسط کی واحد غیرعلانیہ جوہری طاقت ہے۔

مگر اس کے باوجودعراق اور لیبیا جیسی مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیل ایک طویل عرصے سے اس تشویش کا اظہار کررہا ہے کہ ممکنہ طور پر دشمن ہمسایہ ممالک سویلین جوہری توانائی اور 1970 کے این پی ٹی کے تحت تیار کردہ دیگر منصوبوں کو خفیہ بم سازی کے لیے آڑ کے طور پراستعمال کرسکتے ہیں۔

Exit mobile version