یروشلم (ھمگام نیوز) سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی نمائندگی کرتی ہے، اسرائیل کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے جمعہ کو بیجنگ میں سعودی ایران سفارتی تعلقات کی بحالی کے اعلان کے ردعمل میں کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے ملک میں عدالتی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ملک کے خارجہ تعلقات کو نظر انداز کیا ہے۔ ان متنازعہ عدالتی اصلاحات کی وجہ سے ملک میں مظاہروں کا سلسہ جاری ہے۔
حزب اختلاف کے اہم رہنما یائر لاپڈ نے ٹویٹر پر دیگر اہم مخالفین کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی کی بھیانک اور مکمل ناکامی ہے۔”
“تاہم، تین سال پہلے، خارجہ پالیسی نیتن یاہو کی فتح تھی۔”
انہوں نے تین سال پہلے اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات میں “ایک نئے دور” کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا۔
امریکہ کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کے تحت بحرین اور بعد میں مراکش کے ساتھ بھی ایسا ہی معاہدہ طے پایا تھا۔
اس عمل کے آغاز کے بعد سے نیتن یاہو کھل کر اپنے حتمی مقصد یعنی عالم اسلام کی سب سے بڑی سنی طاقت سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جسے وہ اسرائیل کے دشمن ایران کے خلاف اہم اتحادی گردانتے تھے۔
تاہم ایسا نہیں ہوا ۔
اس کے برعکس حیرت انگیز طور پر ، سعودی عرب اور اس کے علاقائی حریف، ایران نے جمعہ کے روز کہا کہ دونوں ممالک نے چین کی ثالثی میں تعلقات کی بحالی اور سفارتی مشن دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اس بارے میں ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
لیکن کئی اسرائیلی اپوزیشن شخصیات نے ریاض-تہران کے تعلقات کو ملک کے سب سے طویل عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم نیتن یاہو کی ناکامی کے طور پر دیکھا جو انتہائی آرتھوڈوکس یہودیوں اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے بعد دسمبر میں دوبارہ اقتدار میں واپس آئے ہیں۔
یائر لیپڈ نے کہا کہ”یہ اس علاقائی دفاعی دیوار کے گرنے کے مترادف ہے جسے ہم نے ایران کے خلاف بنانا شروع کیا تھا”
“ایسا ہی ہوتا ہے جب آپ ایران پر توجہ دینے کی بجائے ایک جنونی قانونی منصوبے پر مصروف رہتے ہیں۔” انہوں نے کہا۔
دریں اثناء ، دائیں بازو کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیت نے ایران سعودی عرب معاہدے کو “ایران کی سیاسی فتح” قرار دیا۔ اور کہا کہ “یہ ایران کے خلاف علاقائی اتحاد بنانے کی کوششوں کے لیے ایک مہلک دھچکا اور نتن یاہو حکومت کی حیران کن ناکامی ہے۔”