پنجشنبه, فبروري 13, 2025
Homeخبریںصاحب علم شریف زاکر پر قاتلانہ حملہ ،عاصمہ بلوچ کا ڈیتھ اسکواڈ...

صاحب علم شریف زاکر پر قاتلانہ حملہ ،عاصمہ بلوچ کا ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتهوں اغواء، اسکالر اللہ داد اور حیات سبزل کا بہیمانہ قتل،اس ملک میں بلوچ قوم کی نوآبادیاتی حیثیت کا عکاسی کرتی ہے۔ بی ایس ایف

کراچی (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے حالیہ جنم لینے والے کشیدہ حالات کے تناظر میں اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ وطن پر جاری نوآبادیاتی جبر نے بلوچ سماج کو اجتماعی طور پر موت کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ان حاکموں اور ان کے آلہ کاروں کی درندگی اور جبر و بربریت سے عام عوام محفوظ نہیں۔خضدار میں ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتهوں عاصمہ بلوچ کا اغوا، تربت میں معروف بلوچ اسکالر اللہ داد کا بہیمانہ قتل اور ماڈل ہائی اسکول کے استاد و ساچان گرائمر اسکول کے ڈائریکٹر شریف زاکر پر قاتلانہ حملہ، حیات سبزل کا ماورائے عدالت قتل اسی بربریت کا کھلا ثبوت ہیں۔جس کی ہم پُرزور الفاظ مذمت کرتے ہیں

اللہ داد بلوچ کی شہادت اور شریف ذاکر پر قاتلانہ حملہ کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ نہیں بلکہ استعماری جبر کی پالیسی کا تسلسل ہے۔ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر اور ماورائے عدالت قتل نوآبادیاتی ڈھانچے کا تسلسل ہیں جہاں علم و شعور کو خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ شریف ذاکر پر حملہ، حیات سبزل اور اللہ داد بلوچ کی شہادت بھی اسی ریاستی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔یہ کوئی وقتی حادثات نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبے کا تسلسل ہے، جس کے تحت بلوچ دانشوروں، اساتذہ اور اسکالرز کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ علم و شعور کی روشنی کو مکمل طور پر بجھا دیا جائے۔ یہ وہی خونی حکمتِ عملی ہے جسے محکوم قوموں کے خلاف ہمیشہ آزمایا جاتا رہا ہے،پہلے ان کے دانشوروں کو قتل کرو، پھر ان کے تعلیمی اداروں کو ویران کرو، اور جب وہ مکمل طور پر فکری یتیمی کا شکار ہو جائیں، تو انہیں ہمیشہ کے لیے ذہنی غلام بنا دو۔ بلوچستان میں جاری قتل و غارت کے پیچھے ایک بھیانک حکمتِ عملی کارفرما ہے، جس کے تحت تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو منظم انداز میں قتل کرکے بلوچ قوم کو ذہنی و فکری پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا جائے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں اکیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی قومی تحریک کو کچلنے اور عوامی مزاحمت کے پیش نظر بلوچستان کے ہر حصے میں ڈیتھ سکواڈز کو پروان چڑھایا گیا۔ سیکڑوں کی تعداد میں اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا، ہزاروں بلوچ فرزندوں کو شہید کرنا اور جبری گمشدگی کا شکار کرنا بلوچستان پر نوآبادیاتی ظلم و جبر کی تاریخی مثالیں ہیں۔گزشتہ دو دہائی کے اندر بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل انتہائی زیرک انداز میں منصوبہ بندی کے ساتھ کی گٸی تاکہ بلوچ قومی تحریک کو پرتشدد انداز میں کچلا جاسکے۔ ان مسلح جتھوں کو بلوچ نسل کشی کے باقاعدہ اسناد جاری کیے گٸے جس کے نتیجے میں ہزاروں سیاسی کارکنان، وکلا، اساتذہ، سمیت عام عوام جن میں عورتوں بوڑھوں اور بچوں کو بھی قتل و اغوا کرنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ نجمہ بلوچ کا مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں بلیک میلنگ و خودکشی نما قتل ہو یا کہ لمہ ملک ناز بلوچ کا سفاکانہ قتل،امیراں بی بی کا سفاکانہ قتل، حال ہی میں عاصمہ بلوچ کا بندوک کے نوک پر اغوا یہ تمام واقعات کڑی در کڑی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ مقامی سطح پر ریاستی اداروں کی جانب سے سماج کے کرپٹ ترین عناصر و مجرموں کو مسلح کر کے بےجا اختیارات دیے گئے جس کے باعث وہ جسے بھی اٹھائیں، مسخ شدہ لاشیں پھینکیں یا بے بس لوگوں کی چادر و چار دیواری کو پامال کریں ان مجرموں سے نہ کوئی سوال پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان کےلیے کوئی قانون وجود رکھتی ہے۔

مرکزی ترجمان نے مزید کہا ان گھٹن زدہ حالات کو قائم رکھنے میں انہی مقامی سہولت کاروں کا اہم کردار ہے جن کو ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہونے کے سبب بلوچ سماج کو تاراج کیا جارہا ہے۔ پہلے اگر نوجوانوں پر دہشتگردی کا ٹھپہ لگا کر نشانہ بنایا جاتا تھا اب گھر کی چار دیواری میں بھی بوڑھے، بچوں اور عورتوں کی زندگیاں اور عزتیں محفوظ نہیں۔ بلوچ عوام کو مقامی ڈیتھ اسکواڈز کے سہارے پر چھوڑ کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں کہا کہ تمام انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں اور بلوچ قوم کو نوآبادیاتی جبر سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز