Homeآرٹیکلزعالمی دہشت گردی کی جنگ " دنیا کی ہار اور پاکستان کی...

عالمی دہشت گردی کی جنگ ” دنیا کی ہار اور پاکستان کی جیت” تحریر :ڈاکٹر حضور بخش

ہمگام کالم

پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی دوغلے پن اور پُر فریب و چیرا دستیوں نے بالآخر امریکی فوج کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کر دیا۔ اور ایک بار پھر افغانستان کو عالمی دہشت گردوں کیلئے محفوظ پناہ گاہ بنا دیا۔ افغانستان اب کئی دہاہیوں تک دہشت گردوں کی آماجگاہ بن جائیگی۔ اور دنیا ایک بار پھر غیر محفوظ اور خطرات و خدشات سے دوچار رہیگی ۔
لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ دنیا پچھلے چالیس سال سے دہشت گردوں کی اصل پناہ گاہ اور اُس نرسری کو نظر انداز کرتی آ رہی ہے جہاں دہشت گردی کی بیج بوئی جاتی ہے۔ جہاں اسامہ بن لادن ، ملا عمر اور اختر منصور جیسے عالمی دہشت گردوں کو ملٹری کیمپس اور خفیہ اداروں کے رہائش گاہوں میں سالہا سال مہمان بنا کر سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ جہاں دہشت گردوں کی عسکری تربیت کیلئے تین سو سے زیادہ کیمپ قائم کیئے جاتے ہیں۔
جی ہاں میں اُس ریاست پاکستان کی ذکر کر رہا ہوں۔ جو اِس وقت امریکی انخلا اور طالبان کی دخول پر جشن منا رہی ہے۔ لیکن اپنی شیطانی چہرہ چھپانے کیلئے کھل کر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے بھی گریزاں ہے۔

دنیا کو مزید گمراہ کرنے کیلئے بار بار اِس بات کی اعادہ کیا جا رہا ہے۔ کہ جی پاکستان کو طالبان حکومت تسلیم کرنے میں جلدی نہیں۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے ہم دنیا کے ساتھ ہیں۔ لیکن دوسری طرف ریٹائیرڈ جرنیلوں اور بوٹ چاٹ تجزیہ نگاروں کے ذریعے نصرُاََ مِنّ اللہ و فتح کی شکرانے ادا کیئے جا رہے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز پر ریٹائیرڈ جرنیلوں اور لفافہ مافیا کے ذریعے دنیا سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی اپیلیں جاری ہیں۔
جس طرح طالبان رہنما و ترجمان پاکستانی جی ایچ کیو سے لکھی گئی بیانیے کو رّٹہ لگا کر افغانستان میں اصلاحات و تبدیلیوں کی باتیں دھرا رہی ہیں۔ اسی طرح جنرل امجد شعیب ، شہزاد چوہدی، شاہد لطیف اور دیگر ریٹائیرڈ ہاکستانی جرنیل گلا پھاڑ کر نئے طالبان کی نمود و نمائش میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں۔

اور اشاروں کنعایوں میں طالبان کی فتح کو پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی جنگی حکمت عملی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف عمران خان ، جاوید باجوا اور شاہ محمود قریشی سرکاری و سفارتی سطح پر امریکہ کی انخلا کو سراہتے ہوئے جوبائیڈن کی تعریف میں لگے ہوئے ییں۔ اور ملک کے اندر مختلف ذرائع سے امریکہ کی انخلا کو شکست اور طالبان و آئی ایس آئی کی جیت کی چسکیاں لی جا رہی ہے۔
امریکہ سمیت دنیا کو اچھی طرح سے علم ہے کہ امریکہ جس کام کیلئے افغانستان پر حملہ آور ہو گیا اُس نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا۔ ایک طرف امریکہ نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی بے پناہ عسکری قوت اور مضبوط معیشت کے ذریعے دنیا میں جہاں بھی چاہے حملہ کر سکتا ہے۔ اُس کے مقابلے میں کوئی بھی بڑی قوت آنے کی جرآت

نہیں کر سکتا۔ وہ جہاں بھی چاہے کسی کی حکمرانی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ وہ مصر جزائر تیونس اور لیبیا ہو یا عراق اور افغانستان ہو۔ امریکہ چایے تو گھنٹوں میں طالبان کی فتح کو شکست میں تبدیل کر سکتی ہے۔
جس طرح امریکہ نے سابق سوویت یونین کو افغانستان سے بے دخل کرکے اسکی شیرازہ بکھر دیا تھا۔ اسی طرح کویت پر عراقی جارحیت کو کچل کر صدام حسین اور عراقی فوج کو تاریخی سبق سکھا دیا۔ پاکستانی جرنیل تو ہر دور میں امریکہ کی دلالی اور پراکسی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ لیکن بازی بدلتے ہی پاکستانی جرنیل ، تجزیہ نگار اور کراہے کے صحافی پاکستانی فوج کو آسمان پر اُٹھا لیتے ہیں۔
یہ تو امریکیوں اور یورپی ممالک کی بیوقوفی ہے کہ وہ آج دن تک پاکستانی فوج کی لومڑی چالوں اور بہکاوے میں آکر بنی بنائی بازی ہار دیتے ہیں۔ ورنہ پاکستانی فوج میں کوئی کامیاب حکمت عملی یا جنگی صلاحیت موجود ہوتی تو 70 سال سے کشمیر کی دو اینچ زمین پر ضرور قبضہ کر لے تھے۔
یہ تو پاکستانیوں کی عادت ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی قوت کی غلط حکمت عملی اور ناکام پالیسیوں کو اپنی کامیابی سے نتھی کرکے اپنی ناکام و بزدل فوج کی تعریفوں کا پل باندھنے لگ جاتے ہیں۔ پچھتر سال تک پاکستانی فوج اور آئی ایس پی آر نے نغمے ریلیز کرنے کے سوا کونسی جنگ لڑی ہے جس سے اُس کی کوئی مقام بنتا۔

اپنے بدترین دشمن بھارت سے چار جنگیں ہارنے ترانوے ہزار فوجیوں کی سرینڈر کرنے ، مشرقی پاکستان گنوانے اور سیاچن گلیشئر و کارگل کی پہاڑیوں سے بیدخل ہونے کے دوران آئی ایس پی آر نے تقریباََ دو سو ملی نغمے ریلیز کرکے اپنی شکست اور بزدلی کو چھپانے کے کوشش کے سوا اور کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟

افغانستان میں امریکہ نواز حکومت کی قیام پاکستان کیلئے بہت بڑی پریشانی تھی۔ جسکی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری تھی۔ کیونکہ سابق طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت نے افغانستان میں بھاری فلاحی سرمایہ کاری کے علاوہ علاقائی و سفارتی رشتوں کو فروغ دیا تھا۔ جو پاکستانی فوج کو قطعاََ قبول نہیں تھی۔
جب بھارت افغان رشتوں میں استحکام آنے لگی تو پاکستان نے طالبان کی امداد میں اضافہ کر دیا ۔ دہشت گردی کی جنگ کے نام پر پاکستان نے حاصل کردہ تمام بیرونی امداد طالبان کی عسکری تربیت اور مالی مدد پر صرف کر دیا۔ اسکے علاوہ طالبان قیادت کو محفوظ پناہ گاہ اور انٹیلی جنٹس معلومات بھی فراہم کردیا۔ جس میں امریکی فوج کیساتھ خفیہ معلومات کی تبادلہ بھی شامل تھی ۔ اِس سے پہلے کہ پاکستان افغانستان کو اپنی دہشت گردوں کی اٹوٹ اڈہ بنانے میں کامیاب ہو۔ اور دنیا کو اپنی دہشت گردوں کے ذریعے بلیک میل کرکے فاہدہ اُٹھانے کی کوشش کرے۔ عالمی برادری اپنی آنکھوں پر بندھی پّٹی اتار کر اِس ناسور سے جان چھڑانے کیلئے سنجیدہ منصوبہ بندی پر دھیان دیں۔

وگرنہ طالبان سمیت پاکستان آرمی یہی سمجھتا رہیگا کہ دنیا اُنکی دہشت گردی سے خوفزدہ ہے۔
جیسا کہ طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد ایک انٹرویو کے دوران بتا چکے ہیں کہ عالمی برادری ہماری داڑھی اور پگڑیوں سے خوفزدہ نہ ہو۔

وہی طالبان جنکو امریکہ نے گھنٹوں کے اندر تہس نہس کرکے اُنکی حکومت کو کچل دیا تھا۔ اور طالبان قیادت افغانستان سے بھاگ کر جی ایچ کیو اور پاکستانی فوج کے کیمپوں میں چھپ گئے تھے یا نام نہاد افغان پناہ گزین کے گھروں میں منتقل ہو گئے تھے۔ ٹرمپ کی ناکام خارجہ پالیسی اور جوبائیڈن کی بے وقت انخلا سے فاہدہ اُٹھاتے ہوئے مہذب فریق کے طور پر قطر معاہدے اور دیگر کانفرنسوں میں شریک ہونے کے قابل ہو گئے۔۔۔

پہلی دفعہ جب امریکہ نے پاکستان کو امریکی انخلا کیلئے تعاون اور طالبان سے ڈائیلاگ کا مطالبہ کیا تو پاکستان نے یہ سمجھ کر تعاون سے انکار کیا کہ شاید امریکہ پاکستان طالبان تعلقات کی امتحان لے رہی ہے۔ لیکن جب پاکستانی فوج کو یقین ہوگیا۔ کہ امریکہ انخلا کیلئے محفوظ راستے کی متمنی ہے۔ تو انہوں نے اپنے یاروں کو قطر میں بات چیت کیلئے فوراََ تیار کر لیا۔ لیکن ڈر کے مارے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ طالبان پر اُن کا کوئی مرزی نہیں چلتا تاہم انہوں نے امریکہ کی خاطر طالبان سے مزاکرات کی بھیک مانگی ہے۔ اور ابھی تک جو پاکستان کی طرف سے نئے طالبان کی ایڈورٹائیز یا اشتہاری مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد مغرب کو طالبان حکومت تسلیم کرنے پر آمادہ کرنا ہے پاکستان کو یقین ہے کہ چین ، ایران ترکی اور کچھ ممالک طالبان حکومت کو جلد تسلیم کر لیں گے ۔ لیکن امریکہ سمیت مغربی ممالک شاید کبھی بھی طالبان کو تسلیم نہ کر لیں۔ اِس خوف و وسوسہ کیساتھ جنرل باجوا اور شاہ محمود قریشی ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
کبھی جرمن وزیر خارجہ سے حمایت کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ تو کبھی روس و برطانیہ سے التجاہیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن مغرب کا کہنا ہے کہ طالبان کو اُن کی باتوں سے نہیں بلکہ عمل اور کارکردگی کے بعد جھانچا جائیگا۔
ابھی تک تو طالبان عالمی برادری کیساتھ چلنے کی یقین دہانیاں کر رہے ہیں۔ لیکن اس بات کی کیا گارنٹی یہ ہے کہ حکومت تسلیم ہونے کے بعد طالبان اپنے کہے پر نہ مکر جاہے۔
ویسے بھی تو ابھی تک طالبان قیادت نے چور کے ہاتھ نا کاٹنے ، نماز اور داڑھی کے قانون واپس لینے اور برقعے کو آہین کا حصہ نہ بنانے کی کوئی وعدہ بھی نہیں کیا۔ عام معافی کا اعلان کرنے کے باوجود امریکہ نیٹو اور بھارت کے معاونین اور سہولت کاروں کی تلاش و جستجو جاری ہے۔ قندھار قندوز مزار شریف اور جلال آباد میں مخالفین کی سراغ لگائی جا رہی ہے۔۔ایسے حالات میں صرف چین ایران اور پاکستان ہی اپنے سفارت خانے چلا رہے ہیں اور چلانا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکہ اور یورپ کیلئے دہشت گردوں کی افغانستان شاید قابل قبول نہ ہو۔
یہ تو آہندہ وقت اور تاریخ بتاہیگی کہ طالبان ایک مستحکم و پر امن افغانستان چلانے میں کس حد تک کامیابی حاصل کر پاہینگے ۔۔۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر امریکہ اور یورپ ایک ہی نظریے کی بنیاد پر اکٹھے رہ کر طالبان کے مخالفت میں کھڑے ریے تو طالبان کیلئے حکومت چلانا نا صرف دشوار ہوگی بلکہ پاکستان بھی دباؤ میں آکر طالبان کے ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہو جاہیگی۔۔

کیونکہ چین ، روس ، ترکی وغیرہ کسی بھی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایران خود مشکلات کی زد میں ہے۔ ایسے میں طالبان کی آپس میں رسہ کشی اور گروپ بندی کے بھی خدشات موجود ہیں۔ ازبک ، تاجک اور شیعہ ہزارہ اپنے اپنے دوستوں کے اشاروں اور معاونت کے منتظر ہیں۔ پشتون اکثریتی طالبان پاکستان کے زیر اثر رہینگے۔۔

آہیے ذرا نئے طالبان کی تعارف پر نظر ڈالیں۔۔۔
نئے طالبان وہی جنونی و انتہا پسند مجاہدین ہیں۔ جو افغان ثور انقلاب کے زمانے میں امریکی ڈالرز اور سعودی ریالوں کی بل بوتے پر پاکستان کے اُس وقت کے فوجی حکمران ضیاالحق نے سوویت یونین کے خلاف میدان میں اتارے تھے۔ علم و آگہی سے محروم پشتونوں کو اسلام کے نام پر ورغلا کر جہادی بنا دیا گیا۔ سوویت یونین جیسے کافر کے خلاف امریکی مومنوں کی امداد سے اسلام بچانے کی کار و بار شروع کر دی گئی۔
اور 9/11 کے بعد امریکہ کی حکم پر ایک اور پاکستانی جرنیل نے جہاد فی سبیل اللہ والے مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیکر بیس سال تک امریکہ کیساتھ ملکر دہشت گرد عرف نئے طالبان کو تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب طالبان نے امریکہ کی معاونت پر پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیا تو دنیا کے نمبر ون ایجنسی ( آئی ائس آئی ) نے اپنے ایجاد کردہ طالبان کیساتھ خفیہ معاہدہ کرکے امریکی فوجیوں کی جاسوسی اور طالبان کو عددی و عسکری مدد کی حامی بھر لی۔ پھر سلالہ چیک پوسٹ پر پاکستانی فوجیوں پر بمباری اور ایبٹ آباد میں فوجی اکیڈمی کے سامنے فوج کے مہمان خاص اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد پاکستانی فوج اور ایجنسیاں طالبان کی صفحوں میں شامل ہو کر امریکی اور افغان فوج کے خلاف جنگ میں برابر شریک رہے۔ وہاں امریکیوں میں بھی شکوک و شبہات بڑھنے لگے کہ انہی کے عسکری و مالی امداد دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے انہیں پر استعمال ہو رہی ہے۔

جب پاکستانی فوج کو اِس بات کی احساس ہو گئی کہ اب امریکیوں کا اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ تو پاکستان آرمی نے طالبان کے ساتھ ملکر مزاحمت کو پھر سے زندہ رکھا۔ وہاں امریکی عوام میں بے چینیاں بڑھتی گئی اور اوباما کے دوسرے دور صدارت سے لیکر ٹرمپ انتظامیہ تک امریکی عوام نے دباؤ بڑھا دیا۔ جس سے ٹرمپ انتظامیہ کو انخلا کا اعلان کرنا پڑا اور جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی انخلا کا کام شروع کر دیا۔ جہاں امریکی اِس مغالطے میں رہے کہ اُنکے تربیت یافتہ تین لاکھ فوج بھاری اسلحے گولہ بارود اور اعلی جنگی ٹیکنالوجی کی مدد سے طالبان کو افغانستان پر قبضہ کرنے نہیں دیتے وہاں افغان حکومت کی ناقص تیاری اور کمزور منصوبہ بندی نے کابل کو پلیٹ میں رکھ کر طالبان کو پیش کر دیا۔
امریکی فوج کی موجودگی میں طالبان کو یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ کابل پر ہلہ بول دیتے لیکن اشرف غنی کی فرار اور فوج کی عدم مزاحمت نے بالآخر طالبان کو فاتح بنا کر افغانستان پر مسّلط کر دیا۔ اِس وقت جب میں یہ تحریر لکھرہا ہوں ۔ خبر آ ریی ہے کہ ماں ( آئی ایس آئی چیف فیض حمید ) اپنے بچوں کی خیریت پوچھنے کابل پہنچ گئی ہے۔
فیض حمید بھارت کو پیغام دینے کابل چلے گئے ہیں۔ کہ اب افغانستان میں بھارت کی کمپنیاں نہیں بلکہ آئی ایس آئی کے دہشت آرام و سکون کیساتھ بیٹھ کر کشمیر پر دراندازی اور یورپ و امریکہ میں خود کش حملوں کی ریہرسل اور منصوبہ بندی کرینگے۔۔۔۔
دراصل امریکہ نے دہشت گردوں کا پیچھا کرکے بارڈر کراس کر دیا تھا۔ اگر امریکہ دہشت گردوں کی نرسری کو ختم کرتا تو دنیا میں دہشت گردی کا صفایا ہو جاتا۔ لیکن امریکہ نے دہشت گردوں کے تین سو پچاس چھوٹے بڑے کیمپس کو چھوڑ کر افغانستان کا رخ کر لیا۔ جہاں صرف نرسری کے چند پودے پرورش پا رہے تھے۔ بلکہ جب بھی اُن پر زمین تنگ ہوتی گئی تو وہ اپنے اصل ٹھکانے لوٹ جاتے تھے۔

95 پرسنٹ دہشت گرد (گڈ طالبان) ابھی تک مظفر آباد ، مانسہرہ بالا کوٹ جنوبی پنجاب اور وزیرستان کے گرد و نواح میں موجود ہیں۔ جو دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے استقبال میں تیار کھڑے ہیں۔

کچھ اپنے بارے میں
اِس وقت بلوچ قوم محدود پیمانے پر آزادی لینے کیلئے برسر پیکار ہیں۔ اِس سے پہلے چار مزاحمتی تحریک بنا کوئی نتیجے کے دم توڑ چکے ہیں۔ اِس بار 2001 سے قومی تحریک کی بنیاد ڈال دی گئی تھی لیکن اِس تحریک نے زور اُس وقت پکڑ لی جب بلوچ قوم کے عمر رسیدہ اعلی شخصیت شہید نواب اکبر خان بگٹی نے اِس جنگ میں باقاعدہ حصہ لیا۔ اور بیماری و پیرانسالی کے باوجود دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہو گئے ۔ لیکن بدقسمتی سے افغانستان پر حملے کیلئے امریکہ کو پاکستان کی تعاون کی ضرورت پڑ گئی۔ 2007 تک پاکستان نے امریکہ سمیت عالمی برادری کو گمراہ کرنے کیلئے بلوچ قومی مزاحمت کو دہشت گردوں سے جوڑنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن کئی سے کوئی رسپانس نہیں ملی۔ تو مجبوراََ مشرف کے بعد نام نہاد سیول حکمرانوں نے ناراض بلوچ اور ناراض بھائی کا شوشہ چھوڑ کر چند مراعات کے عیوض جنگ بندی کا مطالبہ کیا جس کو بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے مسترد کر دیا۔ جب دو سویلین حکومتی ادوار میں مزاحمت کو ختم کرنے کی تمام چالیں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ تو پھر سے دہشت گردی کے القاب سنائی دینے لگے۔ لیکن اِس بار امریکہ یورپ اور چین کے علاوہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے بھی بلوچ مسلح جہد کاروں پر دہشت گردی کے الزامات عاید کر دیئے۔ یہ محض اس وقت ممکن ہو سکا۔

جب آزادی پسندوں کے ایک گروہ نے بی ایل اے کا جعلی نام استعمال کرکے پہلی دفعہ چینیوں کے بس سے کافی دور خود حملہ کیا۔ پھر کراچی اسٹاک ایکسچینج اور گوادر پی سی ہوٹل پر بھی طالبانی طرز کے دو حملے کیے گئے۔جو کسی صورت میں بھی جائز نہیں تھے۔ کیونکہ دنیا پبلک مقامات پر حملوں کو دہشت گردی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت مسلح جہد دم توڑ چکی ہے۔ صرف اپنی موجودگی کی احساس دلانے کیلئے کبھی کبھار اِکا دکا حملے کیئے جاتے ہیں۔ لیکن جنگ میں اب وہ دم نہیں رہا جس سے دشمن کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کا توجہ حاصل ہو سکے۔

پھر بھی مسلح جہدکاروں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جنگ کے حق میں کچھ عالمی حالت بھی سازگار ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے پاس پاکستان کو بلیک میل کرنے کیلئے بلوچ کارڈ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

بلکہ چین ہاکستان ایران اتحاد مستقبل میں بلوچ تحریک کیلئے مغرب کو راغب کر سکتے ہیں۔ خطے میں ایک نئی سنیریو بن رہی ہے ۔ چین کی توسیع پسندانہ رویہ اور ایران کی امریکہ مخالف دست درازیاں نہ امریکہ کو پسند ہیں نا یورپ کو اس لیئے اِس وقت بلوچ آزادی پسند قیادت کو سفارتی کوششیں تیز کرنی چاہیں۔ ایک مضبوط و منظم قومی تحریک عالمی برادری کی حمایت حاصل کر سکتی یے۔ اور جب مغرب نے ایک بار بلوچ آواز کو سنجیدگی کیساتھ سن لیا تو ہمارے اچھے دن بھی آ سکتے ہیں۔ اس لیئے اس وقت عالمی برادری کے زمہداراں تک رسائی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

بیٹھے ہوئے یا روتے ہوئے لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ آپ خود سربراہان مملکت اور عالمی اداروں کا رخ کریں۔ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کی کوشش کریں۔ آپس میں اتحاد اور عوام میں اعتماد حاصل کریں۔ گزشتہ کوتاہیوں سے سبق سیکھ لیں۔ اور آہندہ کیلئے غلطیاں نا دھرانے کی عہد کرلیں۔تو وہ وقت دور نہیں کوئی بڑی قوت بھی آپ کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو جائیگی۔

یہ اپنی زور بازو والی نعرے کو دفن کر دیں۔ آج کی دنیا میں عالمی قوتوں کے بغیر جنگ جیتنا اور آزادی لینا ممکن نہیں۔ طالبان پورے افغانستان کو قبضہ کر چکے ییں۔ لیکن تین ہفتہ گزرنے کے باوجود اپنی حکومتی ڈھانچہ نہیں بنا سکے ہیں۔ نا ابھی تک دنیا کی ایک ملک کی سفارتی حمایت حاصل کر سکے۔ آپ بھی کوئی اسپیشل قوم نہیں کہ دنیا میں آپ کیلئے ترجیحات مختلف ہو۔ اِس لیئے خود کو عالمی برادری کیلئے قابل قبول بنا دیں۔

Exit mobile version