سه شنبه, اپریل 22, 2025
Homeخبریںعرب معاشرےٰ میں اب بھی ماڈلنگ کو برا سمجھا جاتاہے:سعودی ماڈل غالیہ...

عرب معاشرےٰ میں اب بھی ماڈلنگ کو برا سمجھا جاتاہے:سعودی ماڈل غالیہ امین

ریاض (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق سعودی عرب میں  روشن خیال شاہ سلمان کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں  سے بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں اور وہاں 2018 میں پہلی بار فیشن ویک کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
سعودی عرب میں اگرچہ گزشتہ چند سالوں سے بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور وہاں 2018 میں پہلی بار فیشن ویک کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

اسی طرح گزشتہ برس ہی سعودی عرب سے پہلی اسٹیج اداکارہ بھی سامنے آئی تھیں اور 35 سال بعد سینما بھی کھولے گئے تھے۔

گزشتہ سال ہی سعودی عرب میں خواتین کو نامحرم مرد کے ساتھ TV پر خبریں پڑھنے اور پروگرام کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔

اگرچہ خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی 2017 میں ہٹائی گئی تھی، تاہم گزشتہ سال ہی خواتین نے پہلی مرتبہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی ۔
اسی طرح  گزشتہ برس ہی سعودی عرب سے پہلی اسٹیج اداکارہ بھی سامنے آئی تھیں اور 35 سال بعد سینما بھی کھولے گئے تھے ۔

گزشتہ  سال ہی سعودی عرب میں خواتین کو نامحرم مرد کے ساتھ ٹی وی پر خبریں پڑھنے اور  پروگرام کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی ۔

اگرچہ خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی 2017 میں ہٹائی گئی تھی، تاہم گزشتہ سال ہی خواتین نے پہلی مرتبہ ڈرائیونگ سیٹ بھی سنبھالی تھی ۔اسی طرح رواں برس سعودی عرب نے پہلی مرتبہ غیر مسلم ممالک کے لیے بھی سیاحت کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے غیر ملکی خواتین کے لیے مکمل اسلامی لباس پہننے کی پابندی ہٹائی تھی۔

اسی طرح سعودی عرب نے سیاحت کے لیے آنے والے غیر ملکی غیر محرم مرد و خواتین کو ایک ہی ہوٹل کا کمرہ حاصل کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔

کچھ دن قبل ہی سعودی عرب کی پہلی کار ریس خاتون ڈرائیور بھی سامنے آئی تھیں اور اب وہاں کی پہلی ’پلس سائز‘ ماڈل و ٹی وی میزبان بھی سامنے آئی ہیں۔

سعودی عرب کی پہلی بھاری بھر کم ماڈل غالیہ امین نے متحدہ عرب امارات (UAE) میں ہونے والے ایک فیشن شو میں شرکت کی، جو اس سے قبل گزشتہ سال سے ماڈلنگ کرتی آ رہی تھیں۔ غالیہ امین کو جہاں سعودی عرب کی پہلی پلس سائز ماڈل کا اعزاز حاصل ہے، وہیں وہ خواتین کے بھاری جسم اور موٹاپے سے متعلق لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے حوالے سے بھی کام کرتی ہیں۔

انہیں ’باڈی ایکٹوسٹ‘ یعنی ’خواتین کی جسامت‘ کے حوالے سے کام کرنے والی کارکن کا بھی اعزاز حاصل ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ عرب ممالک میں پلس سائز خواتین کو بھی اسی طرح قبول کیا جانا چاہیے جس طرح دبلی پتلی جسامت کی حامل خواتین کو قبول کیا جاتا ہے۔

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے غالیہ امین کا کہنا تھا کہ اگرچہ مغربی دنیا میں اب پلس سائز ماڈلز اور اداکاراؤں کو قبول کیا جا چکا ہے، تاہم عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں اس حوالے سے اب بھی خوشگوار ماحول نہیں ہے۔ سعودی ماڈل غالیہ امین کے مطابق عرب معاشرے اور مشرق وسطیٰ میں اب بھی ماڈلنگ و شوبز کو برا سمجھا جاتا ہے اور اس حوالے سے یہاں کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

غالیہ امین ذاتی طور پر بھی عرب دنیا میں بھاری بھرکم خواتین کو قبول کیے جانے کے حوالے سے مہم چلاتی دکھائی دیتی ہیں اور انہیں متحرک ’باڈی ایکٹوسٹ‘ کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ غالیہ امین کا کہنا تھا کہ بھاری وزن والی خواتین کو فیشن اور شوبز کی دنیا میں آگے آکر شعور پیدا کرنا چاہیے اور معاشرے کو بھی ایسی خواتین کو جسامت کی بنیاد پر نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں قبول کرنا چاہیے۔غالیہ امین عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں فیشن شو اور ماڈلنگ کے حوالے سے کام کرنے والے ملٹی نیشنل اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور وہ ریمپ پر واک کرنے سمیت میک اپ مصنوعات کو بھی پیش کر چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز