Homeآرٹیکلزغلامی ایک کلنک شہید خدائے رحیم بنگلزئی، تحریر: مہراب مہر

غلامی ایک کلنک شہید خدائے رحیم بنگلزئی، تحریر: مہراب مہر

غلامی ایک کلنک شہید خدائے رحیم مہر بنگلزئی

تحریر: مہراب مہر
زندگی بھی اپنے اندر ہزاروں درد تکالیف خوشی غم رشتے  ناطے لیئے سرگرداں ہو کر ہر نکڑ پر آپ کا راستہ روک کر کہتی ہے یہ معاشرہ ہے اسی میں تمھیں جینا مرنا ہے اسے سنوارنے بہتر بنانے کا نام زندگی ہے سانس لینا زندگی نہیں کھانا پینا زندگی نہیں جب تک زندگی کو کسی عظیم مقصد سے ہم آہنگ نہیں کرتے اس وقت تک زندگی راہ بھٹکتے مسافر کی طرح انجان منزل کی طرح ستاروں کی پرپیچ راستوں میں صحراہ کی مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے کسی نہ کسی دن ریگستان کی خوراک بن کر ہوا کے زروں میں کسی اور روح میں سما جائے گی یہی تو فطرت ہے یہی تو زندگی ہے جسے کسی مقصد کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے خوبصورت بناتی ہے اور غیر معمولی کردار صلاحیت قابلیت قربانی خودداری آپکی شخصیت و زندگی کو غیر معمولی بنا دیتی ہے یہ سوچ و خیال ہے انسان کے اندر نمو پاتا ہے پر معاشرتی شعور سیاسی تعلیم ہر ایک کو ایک علیحدہ دنیا سے رو شناس کراتی ہے اور وہ اپنے انجانے مقصد کی تلاش کرکے کسی دن زندگی کی پر پیچ داستان میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں دنیا میں کوئی بھی انسان بلاوجہ و بے مقصد زندگی نہیں گزارنا چاہتا بلکہ فرق صرف شعور کا ہوتا ہے جو اسے اجتماعی بنیاد پر کسی معاشرے کی زریعے سے نصیب ہوتی ہے ہر انسان بچپن ہی سے اپنے منزل کی طرف چل پڑتا ہے لیکن اسے معاشرے کی پرپیچ مسائل راستہ بھٹکاتے رہتے ہیں کیونکہ قانون فطرت یہی کہتا ہے ہر عمل کسی ردعمل کو جنم دیتی ہے یوں ہی دنیا عمل و ردعمل کے بیچ چلتی رہتی ہے اور بچپن ہی سے معاشرے کے کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو ہر محفل کی زینت بنتے ہیں جو کردار کے حوالے سے معاشرے کے دیگر افراد سے انوکھے کردار کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ دنیا غیر معمولی کردار و عمل کو اہمیت دیتا ہے جو کردار غیر معمولی نہیں وہ معمولی بنتا ہے اور اگر کسی کردار میں غیر معمولی تبدیلی نہ آئے تو وہ کچھ عرصے کے بعد معمولی کردار بن جاتا ہے کیونکہ دنیا و لوگ آپ سے ہمیشہ نئے خیالات و نئے نظریات و نئے طریقوں کے متقاضی ہوتے ہیں اور یہی ہے اس زندگی کی داستان جس سے ہر شخص جو سوچ رہا ہے ایسے ہی کردار ہمارے معاشرے کی زینت ہوتے ہیں جو معاشرے میں کچھ کرنے کی جرائت لیے سرگرداں دوڑتے رہتے ہیں میں بھی ایسے کئی افراد سے ملا جو معاشرے میں انوکھا کردار ادا کرنا چاہتے تھے کیونکہ انکے ذہین میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ غیر معمولی عمل و کردار کے ذریعے اپنے معاشرے ملک و قوم کے لیے کچھ بہتر کر سکتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ ہم کھاتے پیتے اور پھر سو جاتے ہیں جبکہ ہمارے چاروں طرف غریبی بزگی لاچاری و غلامی کی جو زنجیر کھینچی گئی ہے اسے توڑنا ہم جیسے نوجوانوں کا کام ہے ہم تاریخ پر فخر کرکےصرف بزرگوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور ہم میں قوم و وطن کے لیے کچھ کرنے کی ہمت نہیں رہی ہے اور اسی دن سے اس نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا فیصلہ کرکے کاروان میں ہمسفر بن گیا یہ کون تھا میں ان سے زیادہ واقف بھی نہیں تھا البتہ اسپلنجی میں پرورش پانے والا ایک نوجوان جو شہید رسول بنگلزئی کے ساتھ ہمارا ساتھی بن گیا غالبا یہ 2007 کی بات تھی جب اس سے ملا. وہ زیادہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا البتہ اسکول میں کچھ عرصہ اس نے ابتدائی تعلیم ضرورحاصل کی تھی جو تعلیم سے زیادہ غلامی کا درس دیتا ہے وہ اب ڈرائیور تھا بچوں کو اسکول لے جانے کا کام کرتا تھا وہ سرکاری ملازم بھی تھا کہ اپنے آفیسر کو آفس پہنچانے کا ذمہ اسکے کندھوں پر تھا اسکی شادی ہوچکی تھی بال بچے والا یہ نوجوان اب زندگی کو کسی بڑے مقصد کے سپرد کرنے والا تھا وہ بی ایم سی میں دھوبی کا کام بھی کرتا تھا اس چھوٹی سی زندگی میں اس نے اپنی غریبی پر فتح حاصل کرنے کے لیے کئی تجربوں سے گزر چکا تھا بلوچ جہد آزادی و اپنے علاقے کے معتبر سیاستدان گوریلا کمانڈر میر عبدالنبی بنگلزئی کی داستانیں سننے اسکی شخصیت سے متاثر ہوکر وہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتا تھا وہ اس سے پہلے اسپلنجی کے کیمپ تک پہنچ چکا تھا لیکن اس نے کبھی باقاعدہ کسی تنظیم سے وابستہ نہیں ہوئے تھے بالآخر حالات نے اسے فیصلہ کرنے کی طرف لے گئے اور وہ کوئٹہ میں ساتھیوں کے ساتھ ہم رکاب بن کر جرائت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھا اسکے سوزوکی گاڑی کئی کاروائیوں میں غازی بن کر ٹوٹے پھوٹے حالت میں اسکی تحویل میں دیا گیا لیکن اس نے ایک حرف تک شکایت نہیں کی اور نہ ہی اسے مرمت کرنے کی مانگ کی وہ تیزی کے ساتھ اپنی باتیں کرتا اور ہر روز نئے نئے ترکیبیں سوچتا رہتا وہ معصومیت کے ساتھ ہوشیار بھی تھا لیکن اپنی بات ڈنکے کی چھوٹ پر کرتا تھا وہ شہیدوں کا مرید تھا وہ لیڈروں کا عاشق تھا وہ وطن کا دفاع کرنے والا نڈر جرائت مند سپاہی تھا وہ شہیدوں کے تصویروں کو اپنے دکان کی زینت بنا دیتا تھا اسکے اس عمل پر کچھ لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ کئی وہ سرکاری کارندہ تو نہیں جو اسطرح سر عام آزادی سے جڑے لوگوں کے خیالات کی تشہیر کرتا ہے یہ عمل وہ تنظیم سے وابستگی سے پہلے دیدہ دلیری کے ساتھ کرتا آ رہا تھا یہی وجہ تھی کہ تنظیم کے ساتھی بنتے بنتے اسے دیر لگی ایک تو ضرورت سے زیادہ حساسیت بھی کسی کام کی تکمیل کو روک دیتی ہے جب شہید رسول نے فیصلہ کرکے اسے اپنے ساتھ لے لیا تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہی اور یہ کہنے لگی کہ میں تو کئی عرصے سے آپ دوستوں کی تلاش میں رہا ہوں مجھے کام کرنا ہے اور وہ تنظیم سے وابستہ ہو کر اپنا کردار ادا کرنے لگے کوئٹہ میں کئی کارروائیوں میں حصہ دار رہے سامان لانے لیجانے معلومات اکٹھا کرنے دوستوں کی تلاش کرنے میں وہ پیش پیش رہا وہ ہمیشہ اپنے روایتی انداز میں کہتے کہ لفظ غلامی ایک گالی ہے اس لفظ سے ہمیں ہر حال میں چھٹکارہ چاہیے ہم رہیں یا نہ لیکن ہمیں اس کلنک کو ختم کرنا ہے پھر وہ شہید رسول کے گروپ کے ساتھ اپنا قومی فرض ادا کرتے رہے اس دوران وہ بی ایل ایف کے ساتھیوں کی بھی مدد کرتے رہے وہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے بس اسے آزادی چاہیے تھا جو وطن پر قابض ہیں انکا خاتمہ اس کا مقصد تھا یہی مقصد ہی اسے موت سے قریب تر کرتا رہا وہ بے خوف اپنا کام کرتا رہا وہ 2009 کو بی ایل ایف کے ساتھیوں کے ساتھ جڑ گیا اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا شہر کے حالات سب کے لیے مشکل رہے اور سب کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور اسے آزادی کے لیے کام کرنا تھا وہ بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے بھی اپنی جہد جاری رکھی کچھ عرصے کے بعد اسے کوئٹہ سے ریاستی فورسز نے اغواء کیا اور قریبا ڈیڈھ ماہ کے بعد17دسمبر 2010 کو اسکی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی وہ گبرو جوان جو وطن سے غلامی کی زنجیریں توڑنے نکلا تھا اب وہ ہم میں نہیں رہا اسپلنجی مچھ بولان و کوئٹہ اسکی یادوں کو اپنے اندر سمیٹ کر خاموش ہوگئے وہ اپنا قومی فرض ادا کرکے ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ کر اپنی تلخ و شیریں یادوں کو قوم کے سپرد کردیا آج بھی بی ایم سی اسکی یادوں کا گہوارہ ہے جہاں وہ اپنے دکان میں بیٹھ کر وطن کی آزادی کے خواب دیکھتا تھا آج اسکے بچے اپنے بابا کی وطن کے مرمٹنے کی داستان پر فخر کرتے ہونگے کہ وہ وطن کی آزادی و وطن کی دفاع کے عوض شہید ہوئے جو اپنی دھرتی میں غیر معمولی کردار ادا کرنے میں مارے گئے جو اپنی بے رنگ زندگی کو کسی عظیم مقصد کے نام کرکے امر ہوگئے جو غیر روایتی علم سے لیس ہو کر آزادی کے لیے قدم بہ قدم اپنے دیگر شہداء کے ساتھ محو خواب ہوئے اور بلوچ وطن پر مر مٹنے کی بلوچی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام سنہری حرفوں میں لکھ کر غیر معمولی کردار کے مالک بن گئے۔

Exit mobile version