دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeآرٹیکلزغنودگی                    ...

غنودگی                                         تحریر ــ    مزار خان

ہر قوم کی اپنی فطری زمین ہوتی ہے جو اسی کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔ جو دوسری قوم کی زمین سے بلکل مختلف ہے۔ لہذا وہ زمین اسکی شناخت کا موجب بنتی ہے۔ یہی شناخت ایک عظیم زبان(یہاں زبان سے مراد شعوری مزاج کی زبان) سے انسان کو نوازتی ہے جو دوسرے قوم کی زبان سے بلکل جدا ہوتی ہے۔ زبان کا جدا ہونا اس کے حرکات و سکنات کو بدلتی ہے۔ جس سے مقدس تہذیب جنم لیتی ہے۔ اور یہی تہذیب ہے جو کہ قوموں کی شناخت اور عظمت بتاتی ہے۔کیونکہ زمین جتنی مقدس ہوگی اتنی ہی تندرستی ہوگی اور جتنی بیمار ہوگئی اتنی ہی قومی روحانیت کا خاتمہ ہوگا۔ اسی روحانیت کی خاطر لاکھوں انسانوں نے اس زمین پر اپنے نقش چھوڑے جو کہ ایک ذمہ داری تھی۔جس کیلئے انسانوں نے فرائض کے پہاڑ توڑے جو کہ انسان کی شعور کو رنگتا ہوا آج کے انسان کی سر بلندی تک پہنچ چکی ہے۔
آج جو قومی شعور اور شناخت کی ترقی ہے یہ جہالت نہیں بلکہ یہ انسانی تاریخ ہے البتہ جنگ کرنا کہاں کی جہالت؟۔یہ تو زندگی کی ایک حالت ہے۔یہ تبدیلی ہے۔ یہ زندگی کی خوبصورتی ہے۔شالا زندگی سے کس زندگی کو بیزاری ہے؟۔لہذا اگر گلزمین پر کوئی اور تہذیب بزور طاقت قبضہ کرے تو مقدس گلزمین بیمار ہوتی ہے۔ کیونکہ “تنخواہ داری اور شام کی روٹی کی فکر انسان کو غلامی کی دہلیز پر بلا جھجک نچواتی ہے”۔اور یہی قومی لاشعوری اور بے حسی زمین کو بیمار کرتا ہے جو اسکی تہذیب و تمدن کی بیماری کا موجب بن جاتی ہیں۔ جب تہذیب بیمار ہو جائے گا تو زبان کی بیماری زمین سے منقسم روحانیت کو بیمار کر دیتی ہے۔اور قابض گلزمین کے مالک کو ایک غنودگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کیونکہ بیماری ہی قوم کو مزید منتشر کرنے کا باعث بنے گا۔
لہذا میرا ذاتی تصور ہے کہ “غنودگی ایک نفسیاتی اور بے شناختی کی بیماری ہے۔ یہ بیماری ایک مکمل نشہ ہے جو کہ خود سے بیزاری ،آپسی ناچاکی، تہذیب و تمدن سے بیزاری، ثقافت، زبان اور روایات سے بیزاری، گلزمین سے بیدخلی، زمین پر اقلیت میں بدلنااور پھر بے اختیار ہونے تک کے سفر کو پہنچ کر اجتماعی خود کشی کا بحث بنے گا”۔ اصل میں اجتماعی موت ہی احساس غفلت کا ایک بے حس رویہ ہے جو قوموں کی قومی مزاج کو توڑ کر آقائیت کا بے سود، بلاجواز اور احساس کمتری کا وہ خلا بنا تی ہے۔ تو غلام آقا کی جبر کی تعریف کئے اور سنے بغیر نہیں رہتا لہذا قومیں آقاؤں کی خوشنودی کو حاصل کرنے کیلئے ایک لاحاصل شناخت کی تگ و دو میں کود پڑتی ہیں۔جو قومی شناخت کے مکمل مترادف ہوتا ہے لہذا میرا خیال ہے کہ  ” بے زمینی بے شناختی کا موجب بن کر بے یقینی کا سبب بنے گا جوکہ ماضی،حال اور مستقبل سے بیگانگی ہوگا۔ اور یہ بیگانگی ہماری تہذیب کو نگل کر ہمیں ہماری مقدس گلزمین پر پناہ گزین بنا دے گا”۔
خدا نہ کرے ایسی حالت ہمارے نصیب میں ہو کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے شناخت کی اس جنگ کو ہزاروں سالوں تک لڑا اور ہر دشمن کو اپنی مقدس سرزمین سے پسپا کر دیا ۔ لہذا اول شناخت، بلوچیت اور مقدسیت کو برقرار رکھتے ہوئے ہم سے ہماری ذمہ داریوں کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بے دھڑک بے رحم ہو کر جنگ کو تیز کریں چاہے وہ کسی بھی پہلو (بذریعہ بندوق، سیاست، ڈیموگرافک تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے، ریسرچ ونگز(جو سیاسی و انٹیلیجنس پہ ہو))میں ہو کیونکہ ہمیں اس سے اپنے اس کھوئے ہوئے یا چھپے ہوئے طاقت کا اندازا ہوگا۔ کیونکہ تاریخ ہم سے ہماری ذمہ داری کا تقاضا بحثیت قوم کے کرتی ہے لہذا جب تک ہم مکمل شدت کے ساتھ جنگ کو اسکی بلندی تک نہیں پہنچائیں گے تب تک ہم صرف دفاع کی پوزیشن میں رہیں گے۔ بھلا غلامی اور شناخت کیا دفاع کا تقاضا کرتی ہیں؟ حالانکہ شناخت کی جنگ اور غلامی کے خلاف جنگ کا مطلب ہی offensive ہے کیونکہ غلام اور آقا کے درمیان offensive رشتہ ہوتا ہے لہذا ہمیں ہماری قومی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنی طاقت کو حرکت میں لانی ہوگی۔

وگرنہ”جب تک ہم اپنے طاقت کو حرکت میں نہیں لائیں گے تب تک ہمیں ہماری پٹھوں میں چھپی طاقت کا اندازہ نہیں ہوگا”۔ کیونکہ جب ہم اپنی طاقت کو سمجھ جائیں گے تب دشمن ہمیں ایک قوم کی حثیت سے جانے گا پھر میں دیکھوں کہ وہ کیسے کہے گا کہ  ” یہ چند لوگ ہیں یا بندوق چھوڑ کر بات کرو”۔ یہ ذہنیت آقا غلام کو اس وقت کہلواتی ہے تب وہ سمجھ رہا ہوتا کہ یہ برابری کی حثیت میں نہیں بلکہ ورغلانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس وجہ سے جنگ دشمن سے زیادہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس نہج پر دشمن کے خلاف لے جائیں۔ اسی وجہ سے ہماری جنگ بلکل دشمن پر منحصر نہیں۔ دوسرا ہمارے خیالات ہماری زبان و عمل کو واضح کرتی ہیں اور ہمیں غیر واضح و مبہم سیاسی زبان کے استعمال کو روکنا ہوگا۔ جیسے ہمارے اکثر سیاسی پروگروموں میں بلاواسطہ یا بلواسطہ ہمارے لیے مظلوم و ظالم(یہ رشتے آزادی نہیں بلکہ اپنے اوپر ہونے والے مار پیٹ کا رونا دھونا پیٹتے ہیں)،محکوم و حاکم(یہ رشتے اپنے حقوق بحثیت ایک وفاق کے زیر اثر چاہتے ہیں) کے الفاظ سے غلامی (یہ اپنے شناخت کی جنگ لڑتا ہے جو مکمل آزادی ہے)اور آقائیت کے رشتے کو بیان کیا جاتا ہے۔ جو کہ ایک توانا قومی سیاسی پروگرام کے برعکس ہے۔ اور کچھ سالوں سے اکثر و بیشتر سیاسی دیوانوں میں لبرل الفاظ کا استعمال جیسا کہ ” we are vulnerable یعنی ہم قابل رحم ہیں یا ہم کمزور و زخم زدہ ہیں ”

حالانکہ ان الفاظ کا استعمال اور ہمارا عمل بلکل متضاد ہیں۔کیونکہ غلام جو کہ آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے اسکی زبان سخت اور واضح ہوتا ہے اور اس کے قوم کا ہر ممبر قابل رحم یا کمزور اور زخم زدہ نہیں ہوتابلکہ وہ مکمل طور پر شعور یافتہ جنگ لڑ رہا ہے لہذا وہ سیاسی طور پر مکمل مسلح (ذہنی و جسمانی) ہوتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز