پیرس (ہمگام نیوز) فرانسیسی صدر عمانوایل ماکرون نے ملک میں بدامنی کے پیش نظراتوار سے شروع ہونے والا جرمنی کا سرکاری دورہ ملتوی کر دیا ہے۔
دریں اثناء فرانسیسی وزارت داخلہ نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت کے خلاف مسلسل چوتھی رات مظاہرے ہوئے ہیں اور فسادات کے دوران میں ملک بھر میں 1311 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
فرانس میں گذشتہ منگل کو پیرس کے مضافاتی علاقے میں ٹریفک اسٹاپ پر پولیس کی فائرنگ سے 17 سالہ نائل کی ہلاکت کے خلاف پُرتشدد مظاہرے جاری ہیں اوروزارت داخلہ نے ان مظاہروں پر قابو پانے کے لیے رات بھر 45 ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا تھا۔انھیں ہلکی بکتر بند گاڑیوں اور کریک پولیس یونٹس کی مدد حاصل تھی۔
فرانس کے مختلف شہروں میں پولیس کی بھاری نفری کے باوجود چوتھی رات بھی فسادات جاری رہے ہیں۔ مظاہرین نے متعدد گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگا دی اور دکانوں کو لوٹ لیا۔حکومت کا کہنا ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے تشدد میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، لیکن پیرس سے لے کر مارسیل اور لیون اور بیرون ملک فرانسیسی علاقوں تک بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔فرانسیسی گیانا میں ایک آوارہ گولی لگنے سے 54 سالہ شخص ہلاک ہو گیا۔
فرانس کی قومی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں بہ شمول اسٹار کھلاڑی کیلیان ماپے نے بھی تشدد کے خاتمے کی اپیل کی ہے۔قومی کھلاڑیوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہم میں سے بہت سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ہم بھی 17 سالہ نائل کے قتل پر درد اور غم کے اس احساس میں شریک ہیں۔تشدد سے کچھ بھی حل نہیں ہوتا۔اپنے اظہاریے کے دیگر پرامن اور تعمیری طریقے بھی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب اس کے بجائے سوگ، مکالمے اور تعمیر نو کا وقت آ گیا ہے۔
نائل کی پولیس کی فائرنگ سے ہلاکت نے پولیس اور رہائشی علاقوں میں کام کرنے والے نوجوانوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری تناؤ کو جنم دیا ہے جو غربت، بے روزگاری اور نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
فرانس میں یہ گذشتہ کئی برسوں کے دوران میں ہونے والے بدترین فسادات میں سے ایک ہیں اور صدر عمانوایل ماکرون پر ایک نیا دباؤ ہے جنھوں نے والدین سے اپیل کی تھی کہ وہ بچوں کو سڑکوں سے دور رکھیں۔انھوں نے سوشل میڈیا پر تشدد کو ہوا دینے کا الزام عاید کیا۔
دریں اثناء اہل خانہ اور دوست احباب ہفتے کے روز نائل کی آخری رسومات ان کے آبائی علاقے نانتیرے میں اداکررہے ہیں۔ منگل کے روز ان کی اندوہ ناک موت کے بعد پیرس کے مضافاتی علاقے میں غیظ وغضب بھڑک اٹھا تھا اور تیزی سے پورے ملک میں پھیل گیا تھا۔
ہفتے کی صبح نانتیرے میں فائر فائٹروں نے گاڑیوں کو لگی آگ بجھا دی جس کے نتیجے میں سڑکوں پر ان گاڑیوں کا ملبہ بکھر گیا۔ مضافاتی شہر کولمبو میں مظاہرین نے کوڑے دانوں کو الٹ دیا اورانھیں عارضی رکاوٹوں کے لیے استعمال کیا۔
بحیرہ روم کے کنارے واقع شہر اور بندرگاہ مارسیل میں شام کے وقت لٹیروں نے اسلحہ کی ایک دُکان لوٹ لی۔مارسیل میں حکام نے قریباً 90 افراد کو اس وقت گرفتار کیا جب مظاہرین کے گروپوں نے گاڑیوں کو آگ لگائی اور دکانوں کی کھڑکیوں کو توڑ دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مشرقی شہر لیون میں بھی عمارتوں اور کاروباری اداروں میں توڑ پھوڑ کی گئی جہاں قریباً 30 گرفتاریوں میں سے ایک تہائی افراد کو چوری کے الزام میں پکڑا گیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ جمعہ کی رات ایک غیر مجاز احتجاج کے بعد سڑکوں پر آگ لگ گئی جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے تھے۔
حکومت کی پُرامن رہنے کی اپیلوں اور سخت پولیس کاری کے باوجود تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مشرقی شہر اسٹراسبرگ میں ایپل کے ایک اسٹور کو لوٹ لیا گیا۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے اور پیرس کے علاقے میں واقع ایک شاپنگ مال میں فاسٹ فوڈ کی دکان کی کھڑکیاں توڑ دیں۔
فرانس میں بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر صدر ماکرون نے ہنگامی حالت کا اعلان کرنے سے گریز کیا حالانکہ سیکڑوں گرفتاریاں اور بڑے پیمانے پر پولیس کی تعیناتی بھی ان مظاہروں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔2005 میں اسی طرح کے حالات میں ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کااعلان کیا گیا تھا۔اس اس کے بجائے صدر ماکرون کی حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کو تیز کر دیا اور راتوں رات 45,000 پولیس اہلکاروں کو تعینات کردیا۔پولیس کی بھاری نفری کو چھٹیوں سے واپس بلا لیا ہے۔