Homeآرٹیکلزفرزندِ کوہسار، شہید ماسٹر نور محمد تحریر: شے بجار

فرزندِ کوہسار، شہید ماسٹر نور محمد تحریر: شے بجار

(ہمگام کالم )
اس جہانِ فانی میں کچھ ایسے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے جو مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں تا ابد زندہ رہتے ہیں ۔جن کی مسکراہٹ صدیوں تک زندہ اور پائندہ رہتی ہے۔ اس جہان اے فانی میں آخر ایک دن تو سب ہی کو مرنا ہے مگر خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو معاشرے کو بیدار کرکے چلے جاتے ہیں۔ جن کی ہر سانس مادر وطن کی خدمت میں وقف ہوتی ہیں جو لمبی مسافت کو نزدیک کرنے کیلئے اپنے وجود کو فنا کر جاتے ہیں، وطن عزیز کو تقسیم کرنے اور غلام بنانے والوں کیلئے ایک کھلی پیغام دے کر چلے جاتے ہیں کہ سرزمین کے فرزند کسی بھی صورت بیرونی حملہ آوروں کو اپنے دشت و صحرا میں اپنی مرضی و منشاء کے بغیر آرم سے نہیں بیھٹنے دینگے۔

ذکر ہو رہا ہے سرزمین کے ایک ایسے فرزند کا جو شہادت کے وقت تک سرزمین بلوچستان کے عشق سے سرشار رہا اور ہمہ گیر محنت و مشقت سے قومی پروگرام کو بلوچی کوچہ ، گدان و ہر میدان تک پہنچاتا رہا۔ ماسٹر نور محمد بلوچ جن کا تعلق بلوچستان کے ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں شہید ایوب جان بلوچ جیسے سرزمین کے حقیقی وارث پیدا ہوئے جو آخری وقت تک سرزمینِ بلوچستان کیلئے اپنے قیمتی جان کو قربان کرنے کیلئے پیچھے نہیں ہٹے. شہید ماسٹر نور محمد ایوب جان کی شہادت کے بعد واحد بلوچ سیاسی کارکنوں سے میں سے تھا جنہوں نے بلیدہ اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں بلوچ قومی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا ۔ ہر گلی کے ہر گھرانے تک قومی سوال کو پہنچانے میں شہید ماسٹر نور محمد کا کلیدی کردار رہا ہے.

شہید ماسٹر نور محمد نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 2008 کو بلوچ ریپبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے سے کیا۔ پارٹی پروگرام کو وسعت دینے کیلئے مختلف پروگراموں اور کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا، جنھوں نے بلوچ عوام کو منظم سیاسی پروگرام دینے میں دن رات ایک کیے. آگے چل کر چند سیاسی معاملات پر اختلافات رکھ کر بی آر پی سے علیحدگی اختیار کر کے بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کی اور سیاسی پروگرام کو آگے بڑھانے میں فحال کردار ادا کیا.

شہید ماسٹر نور محمد سے پہلی ملاقات 2013 کو اس وقت ہوئی جب میں اور ایک دوسرے دوست سیاسی دورے پر بلیدہ گئے ہوئے تھے چونکہ ہمارے کسی دوست نے رہائش کا بندوبست شہید ماسٹر نور محمد کے ذمے لگایا تھا مجھے اب بھی وہ دن یاد ہے جب شہید ماسٹر مجھ جیسے کم علم اور کم تجربہ کار سیاسی ورکر سے ساری رات سوالات کرتا رہا، اُن دنوں آپسی اختلاف پر سیاسی حلقوں میں گرما گرم سیاسی بحث و مباحثے کا دور دورہ تھا ۔سوشل میڈیا پر بلوچ سیاسی اور مسلح تنظیموں میں موجود کمزوریوں اور کوتاہیوں پر دوست زبردست بحث کر رہے تھے۔ ماسٹر شہید سے پہلی ملاقات میں مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ سیاسی معاملات پر وہ کس حد تک سنجیدہ اور حساس ہیں اور شہید ماسٹر نور محمد کو پہلی ہی ملاقات میں پارٹی پرستی اور گروہی سیاست سے مکمل پاک پایا۔ شہید کے دیوان میں بیٹھ کر علاقائی اور عالمی سیاست پر سیر حاصل گفتگو ہوئی. بلیدہ میں تنظیم کاری کرنا ماسٹر جیسے سنجیدہ اور ایماندار دوست کے مدد و کمک کے بغیر ممکن نہیں تھا. اسی ایک ہی سیاسی ملاقات میں شہید ماسٹر سے ایسے تعلقات استوار ہو گئے جو آخری وقت تک قائم رہے اور وقتاً فوقتاً شہید ماسٹر نور محمد سے ملاقات ہوتی رہی اور سیاسی مسائل پر بحث ہوتے رہے. آگے چل کر بی این ایم سے بھی مختلف معاملات پر اختلافات نے سر اٹھانا شروع کر دیا. انہی مسائل پر شہید ماسٹر نور محمد سے مختلف اوقات بحث و مباحثے بھی ہوتے رہے . مسائل کو حل کرنے میں بھی شہید ماسٹر نے کوششیں کیں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے، تو ماسٹر شہید نے بی این ایم کو خیر باد کہہ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی، مگر قومی سوچ کے ساتھ جڑے رہے اور اپنی بساط کے مطابق دوستوں کو مدد و کمک کرتے رہے. آگے چل کر شہید ماسٹر نور محمد نے باقاعدہ مسلح محاذ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور 2016 کو بلوچ قومی فوج بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور اپنے قومی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دینے کا تہیہ کیا. بی ایل اے میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد شہید ماسٹر ایک بار پھر قومی زمہ داریوں کو اپنے کندھوں میں لیے میدان عمل میں کود پڑے تھے ۔ اپنے دوستوں کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اس دوران ماسٹر شہید سے ملاقات کا موقع نصیب نہیں ہوا مگر بذریعہ فون وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے رہے. اسی سال یعنی 2016 کو بذریعئہ کسی دوست شہید ماسٹر نور محمد کے نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں اغواء نما گرفتاری کا پتہ چلا تو میرا ذہن دنگ سا رہ گیا کہ ماسٹر جس سے کچھ وقت پہلے بات ہوئی تھی اب نامعلوم مسلح افراد کے بھینٹ چڑھ گئے. دوسرے دن مذکورہ دوست سے معلوم ہوا کہ شہید ماسٹر کی تشدد زدہ لاش بلیدہ سے بر آمد ہوئی ہے. یہ خبر سن کر حیرانگی اور پریشانی نے ہمیں گیھر لیا کہ ماسٹر جیسے ایماندار اور خوش اسلوب دوست کو کون اسطرح بیدردی سے شہید کر سکتا ہے ؟ مسلسل رابطوں سے پتہ چلا کے اس معاملے پر بی ایل اے نے ایک تحقیقی کمیٹی کا اعلان کیا ہے اور اس بہیمانہ قتل پر تحقیقات جاری ہے اور مستقبل میں اس واقعے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا.

ماسٹر نور محمد جیسے قابل اور باعمل دوستوں کی جدائی پوری تحریک کیلئے ایک بڑا نقصان ہے جس کو صدیوں تک پُر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ماسٹر شہید سے جڑے یادوں کو ایک پیج میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں لہٰذا ہمیں شہید کے ہم خیال دوستوں کو شہدائے بلوچستان کے آزادی کی سوچ کو وسعت دینے کیلئے ہمہ گیر جد و جہد کی طرف جانا چاہیے کیونکہ شہید ماسٹر نور محمد سمیت ہزاروں شہداء کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے.

Exit mobile version