یروشلم( ہمگام نیوز) اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر وہ انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہو جاتے ہیں کہ تو فلسطینی ریاست نہیں بننے دیں گے۔
اسرائیلی عوام منگل کو پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہیں اور اس الیکشن میں فریقین کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
کسی بھی فریق کے ان انتخابات میں ایک چوتھائی سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے۔
نتن یاہو ملک کے سب سے زیادہ دیر تک برسرِاقتدار رہنے والے حکمران بننے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا تازہ بیان اپنی جماعت لیکود پارٹی کے لیے صیہونی اتحاد (زاؤنسٹ یونین) کے مقابلے میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش تصور کیا جا رہا ہے۔
لیبر پارٹی اور اسرائیل ہیت نو جماعت کے اتحاد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں گے۔
نتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے ہاتھوں میں اراضی جانے کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو اسلام پسندوں کے حملوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے۔
اے آر جی نیوز ویب سائٹ سے بات کرتے ان کا کہنا تھا ’جو کوئی بھی اس بات سے صرفِ نظر کر رہا ہے وہ ریت میں سر چھپا رہا ہے۔ بائیں بازو کی جماعت بار بار ریت میں سر چھپا لیتی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو پائے گی تو ان کا جواب تھا ’یقیناً‘۔
سنہ 2009 میں انھوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے خیال کی حمایت کی تھی بشرطیکہ اسے غیر مسلح کیا جائے اور فلسطینی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کریں۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام سے قبل شائع کیے گئے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صہیونی اتحاد کو اکثریتی نشستیں حاصل ہونے کا امکان ہے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کے قیام کے لیے ایک طویل مذاکراتی دور شروع ہوجائے۔
نتن یاہو مخالفین پر مسلسل یہ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات میں یروشلم پر اسرائیلی دارالحکومت کے دعوے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
پیر کو نتن یاہو مشرقی بیت المقدس میں آباد کاری کے حوالے سے بات کرتے کہا کہ وہ واحد شخص ہیں جو شہر کی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
فلسطینی میں ہونے والی مشرقِ وسطی جنگ کے بعد سے سنہ 1967 میں مشرقی بیت المقدس پر جاری اسرائیل قبضے کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس علاقے کو اپنی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اشارے ہیں کہ جو پارٹی زیادہ کامیابی حاصل کرے گی اسے حکومت سازی کے لیے ایک دوسری جماعت کولانو کی حمایت کی ضرورت پڑے گی تاہم اب تک اس کے رہنما موشی کاہلوں نے کسی کے لیے حمایت ظاہر نہیں کی ہے۔