نیویارک (ہمگام نیوز ) فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ ہنگامی اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے فلسطین اور غزہ کے درمیان جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ( یو این ایس سی ) کا بند کمرہ ہنگامی اجلاس ہوا لیکن نہ تو اس میں کوئی باضابطہ قرارداد پیش ہو سکی اور نہ ہی مشترکہ اعلامیہ جاری ہو سکا۔

یاد رہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کی جانب سے ہفتہ کے روز اسرائیل کے خلاف ’ آپریشن الاقصیٰ فلڈ ‘ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں اب تک 1000 سے زائد اسرائیلی شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں افراد کو یرغمال بھی بنایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست یورپی اتحاد کے رکن ملک مالٹا نے دی تھی۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس میں شریک متعدد ارکان نے حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کی مذمت کی لیکن کسی بھی مشترکہ اعلامیے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

سینیئر امریکی سفارت کار رابرٹ ووڈ نے بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’حماس کے حملوں کی مذمت کرنے والے ممالک کی ایک اچھی تعداد ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ سارے نہیں ہیں۔‘

ووڈ نے روس کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ شاید میرے کچھ کہے بغیر ان میں سے ایک کا پتہ لگا سکتے ہیں۔‘

سفارت کاروں نے کہا کہ سلامتی کونسل نے کسی بھی مشترکہ بیان پرغور نہیں کیا، ایک لازمی قرارداد تو دور کی بات ہے، روس کی سربراہی میں ارکان حماس کی مذمت کرنے کے بجائے اس معاملے پر وسیع تر توجہ دینے امید رکھتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسیلی نیبنزیا نے کہا کہ ’میرا پیغام فوری طور پر جنگ بندی کرنے اور بامعنی مذاکرات کی طرف جانے کا تھا، جس کے بارے میں سلامتی کونسل‘ نے کئی دہائیوں سے کہہ رکھا ہے۔‘

انہوں نے کہا، ’یہ جزوی طور پر حل طلب مسائل کا نتیجہ ہے۔‘

چین، جو عام طور پر سلامتی کونسل میں روس کا اتحادی ہے، نے کہا کہ وہ ایک مشترکہ بیان کی حمایت کرے گا۔

سفیر ژانگ جون نے کہا کہ ’یہ غیر معمولی بات ہے کہ سلامتی کونسل نے کچھ نہیں کہا۔‘ انہوں نے اس سے قبل ’شہریوں کے خلاف تمام حملوں‘ کی مذمت کے لیے چین کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔

اجلاس شروع ہونے سے قبل اسرائیلی سفیر گیلاڈ ایردان نے حماس کی جانب سے یرغمال بنائے جانے والے اسرائیلی شہریوں کی تصاویر دکھائیں۔

ایردان نے سلامتی کونسل کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ جنگی جرائم ہیں۔

انہوں نے سلامتی کونسل سے کہا کہ ’اس ناقابل تصور ظلم کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کے لیے ثابت قدمی سے مدد دی جانی چاہیے۔‘

فلسطینی سفیر، جو فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اور حریف حماس کی نمائندگی نہیں کرتے، نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے۔

فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ کچھ میڈیا اور سیاست دانوں کی تاریخ اس وقت شروع ہوتی ہے جب اسرائیلی مارے جاتے ہیں۔

’یہ وقت اسرائیل کے خوفناک انتخاب کی حمایت کرنے کا نہیں۔ یہ وقت اسرائیل کو یہ بتانے کا ہے کہ اسے اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہیے، امن کا ایک راستہ ہے جہاں نہ تو فلسطینی مارے جائیں اور نہ ہی اسرائیلی۔‘

فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کا حصہ نہیں تھے کیوں کہ وہ اس وقت سلامتی کونسل کے رکن نہیں ہیں۔

متحدہ عرب امارات، جس نے 2020 کے تاریخی معاہدے کے حصے کے طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے تھے، کے نمائندے نے اس بحران پر سلامتی کونسل کے مزید اجلاسوں کی توقع ظاہر کی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی سفیر لانا ذکی نصیبہ نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہر کوئی سمجھتا ہے کہ آج کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کونسل کے بہت سے ارکان سمجھتے ہیں کہ دو ریاستی حل کی طرف سیاسی راستہ ہی اس تنازع کو حتمی طور پر حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔‘