لاپتہ بلوچ اسیران ، شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1872 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی این بی عوامی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر میر نور احمد بلوچ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاپتہ بلوچ اسیران شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کی عدم بازیابی کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے نہ صرف طوالت اختیار کررہا ہے بلکہ اس تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ بلوچستان میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں بلوچ فرزندوں کے اغواء اور اُنہیں لاپتہ کرنے کا سلسلہ دسمبر 2004 سے باقاعدہ فوجی آپریشن کے آغاز سے شروع ہوا۔ ابتداء میں اغوا نما گرفتاریوں کا سلسلہ خفیہ حراست میں رکھنے تک رہا مگر بلوچ قومی تحریک میں آنے والی شدت اور طلباء نوجوانوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی تحریک سے گہری وابستگی نے پاکستانی حکمران قوتوں کی جارحیت اور سفاکانہ پالیسیوں کو مزید وحشیانہ بنادیا۔ اس وحشت ودرندگی کا مظاہرہ فورسسز خفیہ اداروں کے ہاتھوں ماورائے عدالت گرفتار لاپتہ کیئے جانے والے بلوچوں کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے کے صورت میں کیا گیا ۔ درندگی کے ان مظاہرے نے لاپتہ بلوچوں کی زندہ سلامت بازیابی کی امیدوں کو وسوسوں خدشات اور بے یقینی میں بدل دیا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ ، سمی بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستانی حکمرانوں کے ان عالمی سامراجی قوتوں سے گٹھ جوڑ کو قرار دیا جارہا ہے ۔ جن کے مذموم مفادات کے تحفظ کے لئے اقوام متحدہ نے قسم کھائی ہوئی ہے ۔ ورنہ 21000 ہزار سے زائد بلوچوں کو غیر قانونی طور پر غائب کرنے اور ان میں سے ہزاروں کو بدترین درندگی آمیز تشدد سے ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنے کے انسانیت سوز اور دل ہلا دینے والے المیوں اور جنگی جرائم پر بڑے بڑے پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں۔ لیکن اس بے حسی کے باوجود لاپتہ بلوچوں کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے جان توڑ جدوجہد کو جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے اور اب بھوک ہڑتالی کیمپ کو کوئٹہ سے کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔ جس کا مقصد ہر اس مقام پر آواز بلند کرنا ہے جہاں پاکستانی مقتدر ہ قوتوں اور بین الاقوامی امن و انصاف اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے مراکز پائے جاتے ہیں۔ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین اپنا یہ مطالبہ بار بار دوہرارہیں کہ اگر ان کے پیارے مجرم ہیں تو اُنہیں عدالتوں میں پیش کرکے مقدمات چلائے جائیں لیکن فوجی عدالتوں میں نہیں کیونکہ اُن عدالتوں میں انصاف کا گلہ گھونٹا جائیگا اس وقت لاپتہ افراد کے کیسز سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں اور جن کو بھی لاپتہ کیا جائیگا اُس کو بھی سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے۔