دمشق (ہمگام نیوز) دو با خبر ذرائع کے مطابق امریکی، فرانسیسی اور جرمن نمائندوں نے شام میں نئی انتظامیہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اعلی عسکری عہدوں پر غیر ملکی جنگجوؤں کو مقرر نہ کرے، یہ سیکورٹی کے لیے تشویش کا باعث ہو گا اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں شامی انتظامیہ کی بری تصویر پیش کرے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے ایک امریکی ذمے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کی جانب سے جاری انتباہ بدھ کے روز امریکی نمائندے ڈینیئل روبنشٹائن اور شام میں عسکری کارروائیوں کے قائد احمد الشرع کے درمیان ملاقات میں سامنے آیا۔

یہ ملاقات دمشق میں صدارتی محل میں ہوئی۔ امریکی ذمے دار کے مطابق اس طرح کے تقرر امریکا میں نئی شامی انتظامیہ کی ساکھ برقرار رکھنے میں ہر گز مدد گار ثابت نہیں ہو گی۔

بات چیت سے مطلع ایک عہدے دار نے واضح کیا کہ فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ جان نویل بارو اور انالینا بیئربوک نے 3 جنوری کو احمد الشرع سے ملاقات میں شامی فوج میں بھرتی کیے جانے والے غیر ملکی جنگجوؤں کا معاملہ بھی پیش کیا۔

ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے 30 دسمبر کو مذکورہ تقرر کی خبر دی تھی۔

تحریر الشام تنظیم نے آٹھ دسمبر کو دمشق پر اس حملے کی قیادت کی تھی جس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا گیا۔ اس کے بعد ملک میں عبوری حکومت کا تقرر کر دیا گیا اور بشار کی فوج کو تحلیل کر دیا گیا۔ عسکری کارروائیوں کی انتظامیہ اس وقت مسلح افواج کی تشکیل نو کی کوششیں کر رہی ہے۔

رائٹرز نیوز ایجنسی نے گذشتہ برس کے اواخر میں بتایا تھا کہ تحریر الشام تنظیم نے تقریبا 50 تقرریاں کیں جن میں چھ غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔ ان کا تعلق چین، یغور، ترکیہ، مصر اور اردن سے ہے۔ ایک شامی عسکری ذریعے کے مطابق مذکورہ چھ غیر ملکیوں میں سے تین کو بریگیڈیئر جنرل اور تین کو کرنل کا عہدہ دیا گیا ہے۔

تحریر الشام تنظیم اور اس کی اتحادی دیگر جماعتوں میں سیکڑوں غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔ یہ لوگ 13 برس تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران میں شام آئے تھے۔

عموما بیرونی ممالک غیر ملکی جنگجوؤں کو سیکورٹی کے حوالے سے مرکزی خطرے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس بات کا شبہ ہے کہ ان میں سے بعض افراد بیرون ملک تجربہ حاصل کرنے کے بعد اپنے حقیقی وطنوں میں حملے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن دمشق میں عبوری حکام کے ساتھ مسلسل بات چیت کر رہا ہے۔

امریکا، یورپی ممالک اور عرب خلیجی ممالک شام میں نئی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ جامع سیاسی منتقلی کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔ اسی طرح انسداد دہشت گردی کو مؤثر بنایا جائے اور خطے میں ایرانی رسوخ پر روک ک

و یقینی بنایا جائے۔