دہائیوں پر محیط کولڈ وار: ایران اور اسرائیل کی علانیہ جنگ میں کیسے تبدیل ہوئی؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر آج جمعہ کو حملہ کیا۔ یہ واقعہ دو قدیم علاقائی حریفوں کے درمیان براہ راست تصادم کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جو طویل سرد جنگ کے بعد ایک اعلانیہ جنگ میں تبدیل ہوگئی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس سے قبل ایران کی جانب سے 13 اپریل کو اسرائیل پر ڈرون اور میزائل داغنے کا جواب دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ تہران نے یہ حملہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پرحملے اور متعدد پاسداران انقلاب رہ نماؤں کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔

یہ تصادم پچھلے سال غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایک وسیع تر کشیدگی کا حصہ ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے درمیان دشمنی کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں اور اس کا دائرہ سایہ دار جنگوں اور زمین، سمندر، فضاء اور خفیہ سائبر سپیس حملوں تک تک پھیلا ہوا ہے۔

ذیل میں ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی کی تاریخ کے چند اہم مقامات کا تذکرہ پیش کیا جا رہا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب نے مغرب نواز شاہ محمد رضا پہلوی کا تختہ الٹ دیا، جو اسرائیل کو ایک اتحادی کے طور پر دیکھتے تھے۔اس کے بعد ایک نئی ملائیت قائم ہوئی جو اسرائیل کی مخالفت کو ایک نظریاتی ضرورت کے طور پر دیکھتی ہے۔

1982کے دور میں جب اسرائیل لبنان پر حملہ کیا تو ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب نے وہاں کے شیعوں کے ساتھ مل کر لبنانی حزب اللہ گروپ قائم کیا۔ اسرائیل نے بعد میں اس مسلح گروپ کو اپنی سرحدوں پر اپنا سب سے خطرناک دشمن قرار دیا۔

1983کے سال کے دوران ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے مغربی اور اسرائیلی افواج کو لبنان سے نکالنے کے لیے خودکش حملوں کا سہارا لیا ہے۔ نومبر 1983ء میں بارود سے لدی ایک کار نے اسرائیلی فوجی ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا۔ اسرائیل بعد میں لبنان کے بیشتر علاقوں سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔

نوی کے دور میں ارجنٹینا اور اسرائیل نے 1992ء میں بیونس آئرس میں اسرائیلی سفارت خانے اور 1994ء میں شہر میں یہودی مرکز کو نشانہ بنانے والے دو خودکش بم دھماکوں کی ذمہ داری ایران اور حزب اللہ پر عائد کی تھی۔ دونوں حملوں میں درجنوں جانیں گئیں تاہم ایران اور حزب اللہ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔

یہ انکشاف ہوا کہ ایران کا یورینیم کی افزودگی کا خفیہ پروگرام ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے، جس کی تہران نے تردید کی۔ اسرائیل نے تہران کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔ پھر دس سال کے دوران اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ایک ماہ طویل جنگ لڑی لیکن بھاری مسلح گروپ کو کچلنے میں ناکام رہا Stuxnet کمپیوٹر وائرس جسے بڑے پیمانے پر امریکہ اور اسرائیل نے تیار کیا تھا ایران کے نتنز جوہری مقام پر یورینیم کی افزودگی کی تنصیب پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ صنعتی آلات پر پہلا معروف سائبر حملہ شامل ہے۔

ایرانی جوہری سائنسدان مصطفیٰ احمدی روشن تہران میں ایک موٹر سائیکل سوار کی جانب سے گاڑی میں نصب کیے گئے بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔ شہر کے ایک اہلکار نے اس کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا تھا۔

2018میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری کو سراہا او ٹرمپ کے فیصلے کو “تاریخی قدم” قرار دیا ہے۔

اسی سال مئی میں اسرائیل نے کہا کہ اس نے شام میں ایرانی فوجی انفراسٹرکچر پر بمباری کی جہاں تہران خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہا تھا، جب وہاں کی ایرانی فورسز نے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر میزائل داغے۔

2020کے دھای میں اسرائیل نے بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی غیر ملکی شاخ قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایران نے جوابی کارروائی میں عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملہ کیا جس میں 100 کے قریب امریکی فوجی زخمی ہوئے۔

2021 کے دوران ایران نے اسرائیل پر ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کی ذمہ داری کا الزام عائد کیا، جسے مغربی انٹیلی جنس سروسز جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت تیار کرنے کے خفیہ ایرانی پروگرام کا ماسٹر مائنڈ سمجھتی تھیں۔ تہران طویل عرصے سے ایسے کسی بھی عزائم کی تردید کرتا رہا ہے۔

2022میں امریکی صدر جو بائیڈن اور اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم یائیر لپیڈ نے ایران کو جوہری ہتھیاروں سے محروم کرنے کے مشترکہ عہد پر دستخط کیے، تہران کے ساتھ سفارت کاری پر طویل عرصے سے منقسم دونوں اتحادیوں کے درمیان اتحاد کا یہ اہم سنگ میل تھا۔

یہ عہد “میثاق القدس” کا ایک حصہ جو بائیڈن کے بطور صدر امریکہ کے پہلے دورہ اسرائیل پر ختم ہوا۔ انہوں نے ایک مقامی ٹیلی ویژن سٹیشن کو بتایا کہ وہ ایران کے خلاف “آخری حربے کے طور پر” طاقت کے استعمال کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے واضح جواب کے بعد عالمی طاقتوں کی طرف سے ایک قابل اعتماد فوجی خطرے کا اظہار کیا جانے لگا۔

2024میں دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر مشتبہ اسرائیلی فضائی حملے میں دو سینیر کمانڈروں سمیت ایرانی پاسداران انقلاب کے 7 اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل نے اس کی ذمہ داری کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

اس کے بعد 13اپریل کو ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا اور راکٹوں اور میزائلوں سے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

ایران نے ایران کی کارروائی کو ’جارحیت‘ قرار دیتے ہوئے آج جمعہ کی صبح ایران کے شہر اصفہان میں حملہ کیا۔ یہ حملے ایران اور اسرائیل جیسے باہمی دشمن ممالک کےدرمیان دھائیوں پر پھیلی سرد جنگ اور کشیدگی کے بعد اعلانیہ معرکے ہیں جس کے بعد دونوں ملک جنگ کے دھانے پر پہنچ گئے ہیں۔