کوئیٹہ (ہمگام رپورٹ) بلوچ حلقے یہ حدشہ ظاہر کر رہے کہ قابض پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری جیسے چاپلوس اور سرفراز بگٹی جیسے کٹ پتلی ریموٹ کنٹرول کے زریعے بلوچستان کی این ایف سی اوارڈ پر گلھاڑا مارنے اور بلوچستان کی معدنی وسائل کو غیرملکی کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھ کر پاکستان کی معیشت کو سہارہ دینے کی پروگرام ٹیبل پر رکھ دی ہے۔
جبکہ حال ہی میں بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی درجہ بندی میں پاکستانی معیشت کے حوالے یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ چکے ہیں۔
اس لیے نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنے رخصتی کے نوٹ میں آنے والی حکومت کے لیے ایک نصیحت چھوڑ دی ہے کہ انکی لکیروں پر چلیے، ہوشیار رہیے اور فوری طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کے ساتھ معاہدہ کریں۔ مہنگائی 29 فیصد اوپر جا چکی ہے۔ مشکل حالات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے وسط مدتی پروگرام انتہائی ضروری ہے۔
گوکہ ڈاکٹر اختر نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اپنائے گئے اقدامات کے نتیجے میں معاشی عدم استحکام ختم ہو گیا، مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوا۔ لیکن عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی نظام اور اس کی غیرمستحکم سیاسی صورتحال سے بدل ہوچکے ہیں۔ غیر پائیدار قرض، غیر معمولی شرح سود، کمزور ریونیو کلیکشن نئی حکومت کے لیے اہم چیلنجز بنے ہوئے ہیں۔
سبکدوش ہونے والے وزیر نے کہا کہ نئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے آخری جائزے کی تکمیل کے بعد ان کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ “شاید زیادہ اہم یہ ہے کہ نئی حکومت IMF کے عملے کے ساتھ ایک نئی درمیانی مدت کی سہولت پر جلد معاہدہ کرے”۔
پاکستانی نگراں حکومت کی ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ برائے (فروری 2024) سے یہ بات واضع ہوچکی ہے کہ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف کے بغیر چل نہیں سکتا.
ڈاکٹر شمشاد کی پیشگی ہدایات اور انتباہ سے یہ بات عیان ہوتی ہے کہ پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ بلکن معاشی ماہرین کا رایہ ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے، عالمی مالیاتی ادارے اپنا پیسہ بچانے کے چکر میں اور چاہنا امریکہ یورپ اور خلیجی ممالک اپنی اسٹرٹیجک مفادات کے تحت پاکستان کو آگسیجن دے رہے ہیں۔
لیکن اس صورتحال کو برقرار رکھنے میں اہم ترین فکٹر غیرممالک میں رہنے والے پاکستانی مزدور ہیں جو ڈالر کے شکل میں remittances گھر رقم بیجھتے ہیں۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ اس ریمٹنس کی ترسیل کی توازن میں اگر تھوڑا سا بھی بگاڑ آ جائے تو نہ عالمی مالیاتی اداروں کی مجبوریاں پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے پر بچا سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی قوتوں کی اسٹراٹیجک مفادات۔
ایک غیرملکی منی ایکسچیج میں کام کرنے والےایک بلوچ ورکر نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے کہا کہ فقط انکےایکسچینج کمپنی کے ایک برانچ سے ہر مہینہ دو ضلعوں سے تعلق رکھنے والے بلوچ مزور کروڑوں کے حساب میں گھر ڈالر بیجھتے ہیں۔
اسی طرح ایک پشتون نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا یورپ خلیجی ممالک اور امریکہ میں کام کرنے والی پشتون مزدور اربوں ڈالر زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان رقم ترسیل کرتےہیں۔
غیر ممالک میں کام کرنے والے ان دونوں پشتون اور بلوچ ورکروں کا کہنا ہے کہ پشتونوں اور بلوچ مزوروں کے ڈالروں کے بدولت قابض پاکستان سانس لی رہی ہے اسکے بدلے میں انہی مزدورں کے رشتہ داروں کو پاکستان کی آرمی اٹھا کر غائب کردیتی ہے۔ ان کی تشدد زدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیتی ہے۔ ان دونوں بلوچ اور پشتوں ورکروں کے مطابق وہ اپنے رہنماؤں کے سامنے ضرور یہ بات رکھیں گے کہ وہ بیرون ممالک کام کرنے والے بلوچ اور پشتون مزوروں کو ترغیب دیں تاکہ انکی ترسیل زر سے پاکستان کی معیشت کو ڈالر کی شکل میں ایک پائی کا بھی فائدہ نہ پہنچے۔