جب قومیں محکومی کے سیاہ لمبی دور میں داخل ہوتے ہیں تو قابض کی مکارانہ چالاکیوں سے وہ اپنا ماضی،تاریخ،ہیروز،رسم اور قومی مائنڈ سیٹ بھول کرقابض کی نیم عکس کا نمونہ بن کر اپنے ہی قوم اورسرزمین کے مخالف سمت سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں سے قومی وفاداری کے تقسیم کا دور شروع ہوتا ہے ۔اور اگر قوم کے دانشوروں ،علم وہنر اور حقائق سے باخبر لوگوں نے قابض کے پھیلا شدہ وبا کو کنٹرول نہ کیا تو یہ قوم کی وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

دنیا اور قومی جدوجہد کی داستانوں سے ایک سبق ملتا ہے کہ جو بھی قابض جب بھی کسی محکوم کی سرزمین پربندوق اور توپوں سے یلغار کرکے اس کو غلام بناتا ہے تو اس کی کوشش ہوتا ہے کہ محکوم اقوام اپنے اصل اور حقیقی ماضی، ہیروز اور مائنڈ سٹ سے دستبردار ہوکر قابض کی چو کھٹ پرسجدہ ریز ہوکر اسکی جھوٹی تاریخ اور ہیروز کو اپنا بنا کر گورخراور ھجرا بن کر قابض کی خدمت گزار بن جائے اورمحکوم کی سرزمین میں قابض کا بروکر بنے۔

اس طریقہ سے قابض محکوم قوم کے لوگوں کی وفاداریاں تقسیم کرکے انکو اپنے قوم اور سرزمین کے خلاف کرتا ہے جوکہ ایک خطرناک اور قدرتی عذاب سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے کیونکہ جب قومی پارٹیاں تقسیم ہوتے ہیں تو وہ جدوجہد کے لیے خطرہ ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرہ قومی وفاداریوں کی تقسیم پر ہوتا ہے۔

قومی وفاداری کی تقسیم سے قابض کے چند لوگ محکوم کے لاکھوں لوگوں پر مدت تک حکمرانی کرکے انکو غلام بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں جس طرح ہندوستان میں چند ہزار برٹش نے ہندوستان کے لوگوں کی وفاداریاں تقسیم کرکے دو سو سال تک وہاں راج کیا اور انکے ننگ اسلاف قابض کی جی حضوری اور سجدہ ریزی کرکے اپنے سرزمین کی مٹی پلید کرکے تاریخ میں جعفر و صادق اور ایجنٹ کا لیبل لیکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لعنت کا نشان بن گئے۔

جب قومی وفاداریاں زیادہ تر جہدکاروں کی کم علمی وژن کے فقدان اور قومی مفادات کو کم ذاتی مفادات کو زیادہ اہمیت کی وجہ سے تقسیم ہوتے ہیں جس سے قومی جہد نقصان کا سبب بنتا ہے اور قابض فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب قومی وفاداریاں تقسیم ہوتے ہیں تو لوگوں میں جہدکاروں اور عام عوام میں بھی دوریاں ہوتا ہے اور جب عوام جہدکاروں سے دور ہوکر جہدسے کنارہ کش ہوں تو قابض کی جیت سمجھا جاتا ہے اگر عوام قابض سے کٹ کر جہدکاروں کی حمایت کریں تو آزادی سے پہلے یہ ایک آزادی کی طرح جہدکاروں کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ Journal of Strategic Studiesکے تحقیق heart and mind, British Counter insurgency from Malaya to Iraqمیں لکھا ہے کہ قابض اور محکوم کے درمیان صرف کامیابی یا کہ ناکامی نہیں ہوتا ہے بلکہ اسکا پیمانہ اس طرح سے لگایا جاتا ہے کہ اگر انسرجنٹ نے عوامی حمایت حاصل کیا ہے اور لوگ قابض کے برخلاف اسکی حمایت کررہے ہیں تو وہ کامیاب ،اگر لوگ اسکے مدمقابل قابض کی حمایت کررےہ ہیں تو قابض کامیاب ہے۔دل و دماغ جیتنے والا جملہ امریکہ کے دوسرے صدرجان آدم کا ہے جس نے کہا کہ لوگوں کی ہمدریاں جس کسی کی طرف ہوں تو دوسرا فریق طاقت اور قوت کی زور پر لوگوں کو زیر نہیں کرسکتا ہے۔

کتاب counter insurgency lesson from historyمیں لکھا ہے کہ قابض اور محکوم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جدوجہد کے دوراں محکوم سرزمین میں محکوم قومی مدد سے شکست دیں اگر محکوم سرزمین میں انسرجنٹ نے لوگوں کے دل و دماغ جیت لیا تو وہ لمبی جنگ بھی جیت سکتے ہیں کیونکہ قومی آزادی کی جنگیں زیادہ دورانیہ پر چلتی ہیں اور یہ جنگ نسلوں کی درمیان تک جاری رہتا ہے ۔ایک نسل سے جہد دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے اور قابل لائق اور سوچ بچار کے مالک جہدکار نئی نسل کو ایک اچھا پروگرام اور پالیسی دیکر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تاکہ انکے جانے کے بعد نئی نسل جہد کو مذید بہتر بناسکے اور قومی تحریک کو آزاد ریاست کے نعم البدل کے طور پر بہتر چلاکر قابض کے مدمقابل بہتر روڈ میپ اپنی قوم کو دیں۔

جب برطانیہ اپنی عروج کے دور میں دنیا میں مختلف گروپس کے ساتھ جنگ میں ملوث تھا تو انہوں نے ان جنگجوئوں کو چھ اقسام میں تقسیم کیا جس میں سکھ جن کے خلاف انگریز 1840میں لڑے، درمیان کے افغان فوجی جن کے ساتھ دوسری افغان وار میں لڑے،منظم ڈسپلن ذولو فوج ، برمی فوج اور بوھر فوج شامل تھے۔ انگریز نے ہر ایک کے خلاف دوسرا ہربہ استعمال کیا تاکہ وہ لوگوں کی وفاداریاں تقسیم کرسکیں۔

کتا ب Encyclophedia of Insurgency And Counterinsurgency A New Era of Modern Warfareمیں لکھا ہے کہ کہ لفظ انسرجنسی کی معنی کافی مشکل ہے لیکن اسکا مطلب ہی ہے کہ قابض کی اتھارٹی کو محکوم سرزمین سے جنگ کرکے ختم کرنا ہے اور اس میں اتھارٹی کو صرف جنگ سے نہیں بلکہ لوگوں کی ہمدردی سے اس نظام کوختم کرکے انسرجنٹ بہتر قومی نظام دے سکے جو محکوم لوگوں کی تاریخ نقافت رسم ورواج اور معاشی مفادات کا تحفظ کرسکے۔

الجزائر جو 130سال تک فرانس کے قبضہ میں رہا جس نے آخر میں کامیابی دو طریقہ سے لیا کہ ایک اپنے لوگوں کے دل ودماغ اپنے حق اور قابض کے خلاف کیا دوسری اپنا مسئلہ دنیا کا مسئلہ بناکر نیٹو جسکا فرانس ممبر تھا جس نے کوشش کی کہ نیٹو اسکیحمایت کرے لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ ان لوگ اپنا مسئلہ دنیا کا مسئلہ بناچکے تھے۔

عثمانی سلطنت کے خلاف عربوں نے بھی اسی حکمت عملی کے تحت عمل کرکے اپنے علاقوں میں لوگوں کو اپنا ہمدرداور عثمانی سلطنت کا مخالف بنانے کی پالیسی پر کام کیا۔ عرب علاقوں دمشق اور بیروت میں عرب اخباروں اور سیاسی تنظیموں نے قوم پرستی کو عثمانیہ کے خلاف استعمال کرکے عوامی طاقت قابض کے خلاف کیا۔دوسری طرف مکہ اور مدینہ عرب نیشنلزم کا گڈھ تھا جسکو ترکی سے دمشق و مدینہ ریلوے ملاتا تھا تو دوسری طرف دنیا کی مدد اور کمک سے بھی ان لوگوں نے ریل وے کو دھماکوں سے اڑا دیا تاکہ وہ مکمل طورپر ترکی سے الگ ہوجائیں ۔ان لوگوں نے جہد کے دوران اپنی قومی وفاداریاں تقسیم کرنے کے بجائے اپنی سرزمین کو قابض سے تقسیم کیا کہ وہ وہاں جانے میں مشکلات کا شکار ہو۔ جبکہ دوسری طرف کچھ عقل سے پیدل اور وقتی مفادات کے پنجرے میں قید جہد کار خود کو قابض سے الگ کرنے کے بجائے خود کو اپنی قوم سے الگ کرکے قابض کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

لانگ اسٹوری شارٹ وہ جہدجلد یا بدیر کامیاب ہونگے جو خود کو قابض سے جد ا کریں ناکہ اپنے لوگوں سے ۔اور وہ اپنی جدوجہد کو دنیا کا مسئلہ بنائیں۔