کراچی(ہمگام نیوز) اظہار یکجہتی کرنے والوں میں جیے سندھ متحدہ محاز کے سینئر رہنماء الہی بخش بلک نے لاپتہ بلوچ و شہدا کی لوحقین سے اظہار ہمدردی کی اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔ اور انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج بلوچ قوم اپنے ایک عظیم استاد اور رہنماء سے محروم ہو گئے ہیں، اُن کی وفات سے حقیقی معنوں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کے پُر ہونے کی مدتوں تک آثار دکھائی نہیں دیتے۔ نواب خیر بخش مری جیسی عہد ساز شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا شمار خطے کے اُ ن انقلابی دانشوروں اور انقلابی قومی آزادی کے رہنماؤں میں ہوتا ہے جن کی قومی آزادی کے لئے ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ بابا خیر بخش خطے کے اُن چند انقلابیوں میں سے تھے جنہوں نے کئی ایک نسلوں کی فکری ذہنی آبیاری کی اور قوم بلوچ کی رہنمائی کرتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج اُن کی وفات سے بلوچستان سمیت، دوسری ملکوں میں مقیم بلوچ اور سندھی اُداس ہیں۔اُنکی توانا آواز کی باز گشت ہمیشہ گونجتی رہے گی۔اور ان کی قومی تحریک کے انقلابی افکار جدوجہد کے میدانوں میں ہمیشہ بلوچ عوام اور مظلوموں کو جوش اور ولولہ عطا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے فکر و عمل کے وہ نقوش چھوڑے ہیں اسے وقت کی دھول دھندلا نہیں کر سکے گی۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ اور سمی بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہالت اور پسماندگی بلوچ اور سندھی عوام کا مقدر کیوں ہے؟ بلوچ قوم کے بچوں کو تعلیم نہ دینا اور انہیں اس دائرے سے روکنا بالا دست قوتوں کی سازش ہے۔ درحقیقت یہ بالا دست طبقات کی گہری سازش ہیکہ بلوچ قوم ااور سندھی قوم کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھا جائے تاکہ وہ تعلیم یافتہ نہ ہو نے کہ وجہ سے وہ ان کے مکروہ فریب کی چالوں کو نہ سمجھ سکیں۔ بالا دست استحصالی طبقات کو اس امر کا بخوبی اندزہ ہے کہ اگر یہ سمجھ گئے تو ان کے ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچیں گے۔ اور پھر اپنی حقوق کے حصول سے انہیں کوئی نہیں روک پائے گا۔ یعنی جو حکمران طبقات راجے مہاراجے، جاگیردار وڈیرے، نواب ، خان اور سردار تھے وہ جہالت اور پسماندگی کو ہی فروغ دیتے رہے۔انہوں نے بھی سب سے زیادہ حملے مظلوم و غریبوں کی تعلیم پر ہی کی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ علم حاصل کرنا حکمران اشرافیہ کا حق ہے جو ان کے خدمت گار ہوا کرتے تھے۔ ان کی اولادیں تعلیم حاصل کرتیں مگر عام لوگوں اس سے دور رکھا گیا تاکہ وہ محض ان کی عیاشیوں کا سامان پیدا کر سکیں ۔اور اُن کی فوج کی سپاہی بنیں۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی عمارتیں اور شاندار محل تعمیر کرنے والے حکمران اس خطے میں کوئی ایک تعلیمی ادارہ قائم نہ کر سکے۔جب انگریز برصغیر پر قابض ہوئیں تو انہوں نے تعلیم کے محکمے قائم تو کیے، لیکن یہ اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لئے ہی تھے۔ انہوں نے غریبوں کے لئے غیر معیاری نصاب تعلیم اور ٹھاٹ کے سکولوں کو رواج دیا۔ لیکن اعلی ٰ طبقہ جو کہ ان کا خدمات گار تھا یعنی نواب، راجواڑھے اور سردار واُن کے بچوں کے لئے اعلی سکول و ادارے قائم کیے۔ اُن کا مقصد یہ تھا کہ ا ن کے نمک خواروں کے بچے یہاں سے تعلیم یافتہ ہو کر نکلیں اور نوکر شاہی کی شکل اختیار کرکے ان کے وفادار رہیں۔ اور غریب بلوچ و سندھی عوام کو غلام بنائے رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسے بڑے اسکول، کالج ، اور ادارے قائم کیے گئے جن میں اس وقت سے لیکر آج تک داخلہ تو درکنار اُن کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔ یہاں سے صرف محنت کش غریب و غلام قوموں پر کمانڈ کرنے اور انہیں کنٹرول کرنے والے ہی پیدا کیے گئے تاکہ سامراجی استحصالی ٹولہ کی حکمرانی کو دوام رہے