کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی بینک کے ثالثی فورم کی جانب سے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو چھ ارب ڈالر ہرجانے ادا کرنے کے فیصلے سے پہلی بار یہ آشکار ہوا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کس انتہا درجے کی لوٹ مار کر رہا ہے۔ صرف ایک منصوبے پر معاہدہ منسوخ ہوا ہے جبکہ ایسے سیندک سمیت متعدد منصوبوں پر روزانہ کروڑوں ڈالر کے وسائل کی لوٹ مار گزشتہ ستر سالوں سے جاری ہے۔ اگر ایک کمپنی سے معاہدہ کی منسوخی پر اتنی بڑی رقم بطور ہرجانہ کے طور پر ادا کرنا ہوگا تو اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان ان سترسالوں میں بلوچوں سے کھربوں ڈالر کے وسائل لوٹ چکا ہے۔
ترجمان نے کہا پاکستان معاشی طورپر دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے حال ہی میں آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینے کے لئے معاہدہ کرچکا ہے۔ پاکستان قطعی طورپر اس قابل نہیں کہ اتنی بڑی رقم ادا کرے بلکہ پاکستان ریکوڈک کو دوبارہ اسی کمپنی یا کسی اور ملک کو اونے پونے داموں بیچ دے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت نے پہلی بار ریکوڈک کو 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کو پچیس فیصد حصص کے عیوض بیچ دیاتھا لیکن آسان شرائط کی وجہ سے امریکی کمپنی نے اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی کو فروخت کیے اور بے پناہ معدنی دولت دیکھ کر کینیڈا اور چِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیاں کاپرکمپنی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔1993سے 2011تک اس منصوبے پر کام جاری رہابلکہ صحیع معنوں میں بلوچ قومی دولت کی لوٹ مار جاری رہا لیکن اس سے بلوچستان اور بلوچ قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پھر پاکستانی سپریم کورٹ نے یہ معاہدہ منسوخ کرایا۔ اس کے خلاف کمپنی نے عالمی ثالثی عدالت کا رخ کیا جس کا بلآخر فیصلہ ٹھیتیان کاپر کمپنی کے حق میں چلاگیا جس کے مطابق پاکستان کمپنی کو چھ ارب ڈالر ہرجانہ اداکرے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ریکوڈک سے قبل1995 سے سیندک کے مقام سے سونا،چاندی اور تانبے کی لوٹ مار جاری ہے۔ پہلے ہی سال کمپنی نے جو اعداد و شمار ظاہر کئے ان کے مطابق پندرہ سو میٹرک ٹن تانبے اور سونا نکالی گئی ہے۔ 2003 سے دن رات بلوچ قوم کے اس بڑے دولت کو پاکستان اور چین گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔ ان منصوبوں سے کتنی مقدار میں لوٹ مارکی جارہی ہے یہ سربستہ راز ہے۔ تاہم کمپنی نے 2016 کوجو اعداد وشمار دیئے ہیں ان کے مطابق اسی ایک سال میں 14 ہزار 136 ٹن تانبا نکالا گیا جبکہ 11 ہزار 33 کلو گرام سے زائد سونا اور 1706 کلو گرام چاندی بھی نکلالی گئی ہے۔اس نام نہاد سرمایہ کاری سے مقبوضہ بلوچستان کے حصہ میں دو فیصد آتا ہے جو کرپشن اور پاکستان سے وفاداری خریدنے کے عیوض دلالوں کو دی جاتی ہے جبکہ سیندک کے آس پاس کے آبادی جیسے نوکنڈی،تفتان اور دالبندین جیسے پسماندہ علاقوں میں عوام آج بھی پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ دیگر سہولیات ِ زندگی تو بہت دور کی بات ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اسی طرح سترسالوں سے سوئی گیس سمیت بلوچ قومی دولت کی لوٹ مار جاری ہے اوراس دولت کے مالک دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ چین کی بلوچستان میں موجودگی کی اصل وجہ بلوچستان کے تزویراتی اہمیت کے حامل ساحل اوربیش قیمت و لامحدود وسائل ہیں اورچین کی آمدکے بعد بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار میں بے پناہ اضافہ ہوا ، اوربلوچستان دہری غلامی کا شکار ہوچکا ہے بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے جس میں سرمایہ کاری خواہ کسی بھی شکل میں ہو وہ بلوچ قوم کے مرضی ومنشا کے برعکس ہے اور عالمی قوانین بھی کسی مقبوضہ خطے میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا ٹھیتیان سمیت تمام سرمایہ کارکمپنیوں اورممالک کو مقبوضہ بلوچستان میں سرمایہ کاری سے پہلے بلوچستان کی تاریخ،قبضہ گیریت اور پاکستان کی پوزیشن کو ملحوظ ِنظر رکھنا چاہئے اوراس مقبوضہ سرزمین پر سرمایہ کاری سے گریز کرنا چاہئے۔