لندن (ہمگام نیوز) اطلاعات کے مطابق کے گزشتہ روز فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی و ایرانی مظالم کے خلاف فری بلوچستان موومنٹ نے جرمنی اور برطانیہ میں بیک وقت مظاہرے کیئے گئے، لندن میں مظاہرہ ٹرافلگر سکوا ئر میں کیا گیا جہاں برطانیہ میں مقیم بلوچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکا نے پاکستانی و ایرانی مظالم کے خلاف بینرز، پلے کارڈ اور آزاد بلوچستان کے پرچم اٹھا رکھے تھے، پلے کارڈز میں بلوچستان کی آزادی، جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور بلوچستان میں ایرانی و پاکستانی جبر و مظالم کے خلاف نعرے درج تھے اس کے علاوہ فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے بلوچستان پر ایرانی و پاکستانی قبضہ اور بلوچ قوم پر مظالم کے خلاف لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے پمفلٹ تقسیم کیے
جبکہ جرمنی میں مظاہرے کا آغاز ڈورٹمونڈ شہر کے مرکزی ٹرین اسٹیشن سے شروع ہوا جہاں مظاہرین نے جمع ہوکر بلوچستان کے غیر قانونی قبضے، مقبوضہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گُمشدگیوں کے خلاف نعرے بازی کی جس کے بعد مظاہرین نے ایک ریلی نکالی جو شہر کے مرکزی شاہراہ سے ہوتے ہوئے شہر کے مرکز تک جا پہنچی۔
مظاہرین نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان کے جبری قبضے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گُمشدگیوں کے خلاف نعرے درج تھے، مظاہرے کے دوران مظاہرین مسلسل پاکستان و ایران کی جانب سے بلوچستان پر جبری قبضے اور دیگر جرائم کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ احتجاجی مظاہرے کے دوران بلوچستان کے حالات حاضرہ کے حوالے سے جرمن عوام میں آگاہی پھیلانے کے لئے سینکڑوں پمفلیٹ بھی تقسیم کئے گئے۔
مظاہرین سے فارس بلوچ، ترانگ بلوچ، ماہ گونگ بلوچ، ایمان بلوچ، جلیل بلوچ، جبار بلوچ، خُدا داد بلوچ، عبدالواجد بلوچ، ابوبکر بلوچ، سمیر بلوچ، بی بگر بلوچ اور محمد بخش بلوچ نے خطاب کیا۔
مقررین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں سال 2022 کی شروعاتی دو مہینوں میں اب تک قابض آرمی نے 135 افراد کو بلوچستان سے جبری گُمشدگی کا شکار بنایا ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل ہیں۔ اس سال کے شروع ہوتے ہی قابض پاکستانی آرمی کی جانب سے مظالم کی ایک نئی لہر شروع کی گئی ہے جس میں لوگوں کی جبری گُمشدگی کے علاوہ مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی جارحیت کو تیز کردیا گیا ہے جو ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرچُکا ہے لیکن مہذب دنیا اور انسانی حقوق کے ادارے اس تمام تر صورتحال پر مکمل طور پر خاموش ہیں جو ان کے مینڈیٹ اور ذمہ داری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس طرح کی بیگانگی اور لا تعلقی سے ہم بحیثیت مظلوم حق بجانب ہونگے اگرہم یہ نتیجہ اخذ کریں کہ یہ ادارے ڈھکوسلے نعرے اور طاقت وروں کے مفادات کے تحفظ کے لئے وجود میں لائی گئی ہیں۔ طاقت ور کو قتل و غارت گری کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو جبری گُمشدہ کرنے پر بھی استثنیٰ حاصل ہے۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ حالیہ دہشت و وحشت کی لہر لوگوں میں خوف و حراس پھیلانے کی غرض سے تیز کردی گئی ہے تاکہ لوگ خوف زدہ ہوکر بلوچ کی قومی آزادی کی تحریک سے دور رہیں۔ پاکستان و ایران کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ قومیں کبھی بھی خوف زدہ ہوکر اپنی قومی بقاء اور شناخت سے دستبردار نہیں ہوتیں بلکہ یہ مظالم قابض اور مقبوض کے درمیان کے رشتے کی لکیر کو مزید واضح کردیتے ہیں جو ان کی مزید پختگی کے سامان فراہم کرتے ہیں اور پچھلے بیس سال سے زائد جاری حالیہ جنگ اس کی واضح دلیل ہے کہ قابض کے تمام مظالم کے باوجود بلوچ قوم اس فیصلے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جو ضرور منزل تک پہنچے گی۔