دوشنبه, اپریل 21, 2025
Homeخبریںموجودہ بحرانی سیاسی صورتحال کسی المیہ سے کم نہیں ہے:BSF

موجودہ بحرانی سیاسی صورتحال کسی المیہ سے کم نہیں ہے:BSF

کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے13نومبر یوم شہدائے بلوچستان کے دن کے مناسبت سے اپنے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہاہے کہ تیرہ نومبر ایک تاریخی دن ہے اس دن بلوچستان سمیت دنیا بھر کے بلوچ اپنے قومی شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں شہداء نے جس جدوجہد کی بنیاد رکھی وہ ایک طویل تسلسل رکھتی ہے یہ جدوجہد مختلف مراحل سے گزر کر آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے آزادی کے بغیر واپسی ممکن نہیں, سمجھوتہ اور معائدوں کی تمام گنجائش ختم کرکے بلوچ شہداء نے جو قربانیاں دی وہ تاریخ کے انمٹ لمحات ہے تمام تر سختیوں و آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے جدوجہد کے اس منزل تک پہنچنامجموعی طور پر بلوچ قوم کی فتح ہے.

ترجمان نے کہاکہ اگرچہ بلوچ قوم ابھی تک واک و اختیار وت واجہی سے محروم ہے لیکن برسر پیکار ہیں جدوجہد جاری ہے تھکاوٹ مایوسی اور تشدد کی تمام تر رجحانات کو مسلط کرنے کی کوششوں کے باوجود آزادی کے شمعیں روشن ہے جو یقینا آزادی کی صبح کو غلامی کے تاریکیوں سے چھین کر کرہ ارض کے نقشہ پر بلوچ قوم کو ایک باوقار زندگی گزارنے کے لے کافی ہے .

ترجمان نے کہاکہ بلوچستان میں قوم پرستی کے نام لینے والے کئی پارٹیاں جو اپنے وجود میں بلوچ قوم کی نمائندگی کا دعوی کررہے ہیں لیکن وہ نہ ابتداء سے بلوچ قومی آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور نہ ہی ان کی اختتام بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد سے وابسطہ ہونے کی بحیثیت پارٹی امکانات ہے جو بلوچ عوام کو پارلیمانی طریقہ سیاست سے فریب دینے کی کوشش کرتے ہوئے بلوچ عوام کی ہمدردیان سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بلوچ قوم کو چاہیے کہ ان کی سیاست اور چالبازیوں کا شعور رکھتے ہوئے قومی آزادی کی مرکزیت اور جدوجہد سے جڑ جائے نلکہ و نالی مراعات و پیکجز کی سیاست کرنے والے نہ تو بلوچ قوم کی تاریخ کو پر فخر بنارہے ہیں نہ ہی بلوچ شناخت کے علمبردار ہیں بلکہ ان کی اپنی مفادات ہے اور پورے بلوچ قوم کو اپنے .مفادات کی بھینٹ چڑھا کرغلامی اور صرف غلامی کو مضبوط کررہے ہیں غلامی نے بلوچ قوم کو بھوک غربت بربادی اور تکالیف کے سوا اور کیا دیا ہے بلوچ اکسویں صدی میں بے پناہ وسائل کے ہوتے ہوئے قدرتی طورپر ایک امیر خطے کے مالک آج بھی پتھر کے زمانہ میں نظر آتی ہے کیا تبدیلی آئی ہے اور یہ کیا تبدیلی لاسکیں گے جو غلامی کو اپنے زندگی سمجھ بیٹھے ہیں بلوچ شہداء نے اس لئے قربانیاں نہیں دیں کہ آج کچھ روایتی پارٹیان ان کی جدوجہد کو کنفیوز کریں ان کی طریقہ کار لاءحہ عمل پروگرام اور حکمت عملی کو اپنی روایتی سیاست کے زریعہ سبوتاژ کریں شہداء نے بلوچ قوم کی شناخت کے لئے اپنی زندگیان دیں ان کی بھی خوائش تھیں کہ وہ چند دن اور جیئے ان کے بچے ایک پرتعیش زندگی گزاریں لیکن وہ غلامی کی زندگی میں جینے کے  بجائے آزادی کے لئے اپنے جان سے گزر کر ناقابل مصالحت جدوجہدسے ہم آہنگ ہوکرآزادی کے بغیر کسی بھی مرحلے و مقام پر پڑاہو کو مسترد کردیا ترجمان نے کہا

کہ تیرہ نومبر کا دن تمام بلوچ پارٹیوں اور سٹیک ہولڈرز کے لئے ایک پیغام دیتا ہے کہ تمام آزادی دوست جدوجہد کرنے والےایک مرکزیت کا حصہ بن کر جدوجہد کریں اور اپنے اپنے اختلافات کا خاتمہ کریں اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کی کوشش کریں جو مجموعی طور پر ایک المیہ سے کم نہیں ہے جس کے اثرات اور نقصانات سے لاکھ چائے بچا یا نہیں جاسکتا اور نہ ہی یہ بلوچ قومی تحریک کے لئے نیک شگوں ہے بلکہ تحریک کے اندر ٹھوٹ پھوٹ تقسیم اور اختلافات کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے ان کی درست وضاحت اور جانچ پرکھ کی جائے اور دور دور تک ان کی محرکات اور وجوہات معلوم کیا جائے چائے کوئی بھی دھڑہ اپنے آپ کو درست اور دوسرے فریق کو صحیح نہ سمجھے لیکن کیا اس طرح اس بحرانی کیفیت سے نکلا جاسکتاہے غلطیان جہاں جہاں بھی انہیں چن چن کر اپنے اپنے تحفظات اور خدشات کو دور کیا جائے یہ ا ختلافات جس کی نہ سنجیدگی سے جائزہ لیا جارہاہے اور نہ ہی ان کی پرواہ کی جارہی ہے یہ اختلافات جھنجھوڑ دینے والے ہیں جب تک ایک مرکزیت پہ اکھٹے نہیں ہوں گے اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو بلوچ سماج کو اس طرح کے صورتحال سے دو چار کرنے والے واقعات اگر ان کی فوری حل کی کوشش نہ کی گئی تو یہ ایک بڑے المیہ سے کم نہیں ہوں گے اور اس صورتحال میں رہتے ہوئے ہم بلوچ شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کا حق ادا نہیں کرسکیں گے.

ترجمان نے کہاکہ اختلافات پر اس طرح ٹکی رہنا مزید اختلافات کے سلسلوں کو متحرک کرنے کا دانستہ عمل ہو گا جس کی زمہ داری ہم سب پر عائد ہوگی کوئی بھی اس سے بری الزمہ نہیں ہوگا اس لئےضروری ہے کہ جدوجہد کی حاصلات اور ناکا میوں کا شعوری اور تنقیدی جائزہ لے کر ایک درست لائحہ عمل اور پروگرام کی وضاحت کی جائے ابہامی کیفیت میں رہ کر بلوچ عوام کی وسیع تر حمایت کو کھونے میں زیادہ دیرنہیں لگ سکیں گے.

ترجمان نے کہاکہ کچھ پارٹیاں ایران جیسے ریاست کو اپنے حمایتی سمجھ کر عالمی دنیا کے مضبوط حمایت کو کھو بیھٹنے کے مواقع فراہم کررہے ہیں اپنے اس رویہ پر بھی سنجیدگی سے غور کرناچاہئے کہ ایران جیسے بلوچ دشمن قوت جو عالمی دنیا کے لئے بھی قابل قبول نہیں کس زاویہ سے بلوچ قوم کے لئے فائدہ مند ہوسکتا ہے ایک ہی شناخت ایک اکائی اور ایک معاشی سیاسی وجغرافیہ کے طور پر رہنے والے بلوچ جس کی قومی حدود کا تعین واضح ہے چائے و ہ مغربی بلوچستان ہو یا افغانستا ن کے بلوچ حدود وہ بلوچستان ہے ایران ہمارے ایک حصہ پر اپنا حق جتاکر ہماری آذادی کا کس طرح حمایتی ہوگا بلوچ قوم چائے جہاں بھی ہے تمام تر مصنوعی ریاستی شناخت و پہچان کو مسترد کرتے ہوئے بلوچ شناخت کے ساتھ عالمی دنیا کی بیچ اپنی شناخت اور آزادی برقرار رکھنا چاہتا ہے تحریک کے ارد گرد ان ٹھوس حقائق سے انکار یا انہیں رد کرنے کے بجائے ان کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے الگ الگ اور بکھری ہوئی طریقہ کار یا پروگرام پر جدوجہد کرنے کے بجائے ایک مشترکہ مرکزیت کا ہونا ناگزیر ہے ایک منظم اور متحرک مرکزیت آج کی ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے جب مقصد ایک ہے تو مشترکہ جدوجہد میں کیا مشکلات ہیں الگ الگ لاءحہ عمل میں رہ کر ریاستی ڈھانچے کی مرکزیت کو تھوڑنے اور غلامی کو شکست دینے کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا اگر ہم اس نئی پیش رفت کے لئے سنجیدہ ہوکر ایک نئی قومی مرکزیت کے ڈھانچے کے تعمیر کا آغاز کریں گے تو یہ بلوچ قوم کے لے مشعل راہ ہوگی ہ میں چاہیے کہ ہم عالمی صورتحال کا باریک بینی سے ادراک رکھتے ہوئے زاتی گروہی اور شخصی مفادات سے بالاتر ہوکر مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک مشترکہ قومی پروگرام سائنسی لاءحہ عمل اور درست حکمت عملی پر اتفاق کریں ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز