جمعه, اکتوبر 11, 2024
Homeآرٹیکلزمکران نامہ:تحریر: نود بندگ بلوچ

مکران نامہ:تحریر: نود بندگ بلوچ

عوامی اعتماد کیوں ضروری ہے؟ یہ اٹل حقیقت ہے کہ قومی غلامی کے خلاف جدوجہد کا آغاز ہی آپ کمزور کی حیثیت سے کرتے ہیں کیونکہ اگر آپ کمزور نہیں ہوتے تو مقبوضہ نہیں ہوتے، اس کمزور جہت پر ہونے کے باوجود جو چیز آپ کو اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن سے لڑنے پر آمادہ کرتا ہے وہ ایک ایسی چھپی قوت ہوتی ہے جس کا آپ ادراک رکھتے ہیں اور وہی چھپی قوت عوامی اعتماد و حمایت ہوتی ہے، جسے آپ حاصل کرکے ایک معمولی اقلیت سے بڑھ کر ایک ناقابلِ شکست قوت بن جاتے ہیں اور اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور مخالف سے مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو قابض سے جنگ کا پہلا مرحلہ نا اسے شکست دینے کیلئے ہوتا ہے اور نا ہی آپ شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ ہوتا ہی عوام کی توجہ پانے، اسکی حمایت حاصل کرنے اور اسے شریک کرنے کیلئے فیصلہ کن جنگ عوامی شرکت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے، آپ عوام کو اپنے عمل،کردار اور مقاصد سے یقین دلاتے ہیں کہ آپ بہتر ہیں اور آپ اسکے لئے بہتر چن رہے ہیں، یہ فرق اتنا واضح ہوتا ہے کہ عوام اپنے عمومی اور جامد زندگی میں ارتعاش پیدا کرنے اور مصائب قبول کرنے پر تیار ہوتا ہے، اور ایک بار جب آپ اس جنگ و جدوجہد کو عوامی جنگ بنادیتے ہیں تو پھر دشمن کا شکست اٹل ہوجاتا ہے تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی قوت عوام کا مقابلہ نہیں کرسکا ہے۔ اس عوامی اعتماد کا حصول سالوں کی تحریروں ، تقریروں ، قربانیوں اور سرگرمیوں کا محتاج ہوتا ہے لیکن جتنی مشکل سے آپ اسے حاصل کرتے ہیں اتنی ہی آسانی سے آپ اسے کھوسکتے ہیں صرف اپنے اور دشمن کے بیچ کھینچے ہوئے لکیر کو مٹانے سے وہ لکیر جو آپکے اور دشمن کے طاقت کے معنی عوام کیلئے مختلف معنوں میں تشریح کرتا ہے وہ لکیر جو آپکے بندوق اور دشمن کے بندوق کا الگ خاکہ لوگوں کے ذہنوں میں نقش کرتا ہے وہ لکیر جو مسیحا اور دشمن کا فرق قائم کرتا ہے، جب یہ لکیر مٹ گئی یعنی آپکی طاقت چاہے جتنی ہی معمولی کیوں نا ہو اسی طرح استعمال ہونے لگا جس طرح دشمن کا ہوتا ہے تو پھر لوگوں کیلئے آپ اور دشمن ایک سے بن جاتے ہیں، پھر وہی عوام فاعل بننے کے بجائے مفعول بن کر صرف تماشہ دیکھتا ہے اور جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مصداق صرف زیادہ طاقتور کا اپنے لیئے چناو کرتا ہے کیونکہ پھر اسکے ذاتی مفادات تبھی تحفظ پاسکتے ہیں جب وہ زیادہ طاقتور کے قریب ہو اور دشمن کیلئے عوامی اعتماد و حمایت کے بغیر آپ ایک آسان سے ہدف بن کر ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔
’’اس پوری جنگ میں دشمن کی پروپیگنڈہ مشینری زوروں سے کام کرتے ہوئے ایسے رائے گڑھتی ہے اور ایسے حالات و واقعات پیدا کرتی ہے جس سے جہدکار لوگوں کے سامنے بے رحم قاتل اور دہشتگرد ثابت ہوں، کیا یہ عوامی رائے کو بد اعتمادی کا شکار نہیں کرسکتی ؟‘‘ عوامی اعتماد و حمایت پر مختصر گفتگو کے بعد میں نے اس پیراں سال بلوچ سے پوچھا جو بلوچستان کے علاقے ہوشاب کا رہائشی ہے، اس پورے گفتگو کا مقصد ہی اس سچائی کی چھان بین کرنی تھی جو روز مکران میں تحریک کی گٹھتی ہوئی مقبولیت اور عوام بیزاری کے بابت سننے کو ملتی ہے، اپنے جھریوں بھرے چہرے اور سرخ آنکھیں جھکائے میری طرف دیکھے بغیر ہی وہ بولنے لگا ’’نہیں ایسا نہیں ہے، جب عوام تحریک کی حمایت کرتا ہے تو اسکا آغاز ہی دشمن کو ایک جھوٹا اور مکار سمجھنے سے ہوتا ہے ، دشمن کے پروپیگنڈے سے میرے خیال میں کوئی بھی ایسا شخص جو اسے دشمن سمجھتا ہے اتنی آسانی سے مرعوب نہیں ہوتا اور نا ہی اس اعتماد کو ایک آدھ واقعات یہ غلطیاں توڑسکتے ہیں، بلکہ یہ بیجا رویوں کا ایک ایسا نا رکنے والے تسلسل کا منطقی انجام ہوتا ہے، جسے روز آپ دیکھتے ہیں جو آپکا اعتماد و امید توڑ دیتا ہے‘‘ وہ رک رک کر بول رہا تھا جیسے وہ اپنے مافی الضمیر کے اظہار کیلئے مناسب الفاظ ڈھونڈ رہا ہو لیکن ایک متاثرہ شخص اور غیر جانبدار تجزیہ کار جیسے دو کرداروں کے بیچ پھنس کر مناسب لفظ بندی سے وہ قاصر نظر آرہا تھا، پھر اچانک اپنا سر جھٹک کر میری طرف دیکھ کر وہ بولنے لگا ’’میں ایک ان پڑھ بوڑھا شخص ہوں ، میری چھوٹی سی دنیا ہے اور میرے بیان اور محسوسات بھی چھوٹے سے دائرے میں قید ہیں، شاید میں تمہیں اس بد اعتمادی اور بیزاری کو اس طرح بیان کرکے نہیں سمجھا سکوں جیسا تم مجھ سے امید رکھ رہے ہو، میں تمہیں اپنے علاقوں کے وہ چھوٹے چھوٹے واقعات سناتا ہوں جو میں روز دیکھتا اور سنتا ہوں اور وہ محسوسات بتاتا ہوں جو میں روز محسوس کرتا ہوں شاید تم خود ان کو جوڑ کر اپنا جواب ان سے ڈھونڈ نکالو۔‘‘

*:ہوشاب ، شاپک ، تجابان اور بی ایل ایف:۔
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گرد و پیش ہونے والے ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بیان کرنے کا تانتا باندھ دیا جو مسلسل ہلکی ہلکی ضربوں کی طرح اس پر پڑ پڑ کر اسے تحریک بیزار شخص بنانے میں کامیاب ہوئے تھے، اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ہمارے گاوءں میں ایک سفید ریش کماش رہتا ہے جس کا نام میں ظاہر نہیں کروں گا ، وہ نا صرف ہمارے گاوءں میں قابلِ عزت ہے بلکہ وہ ہمیشہ تحریک آزادی کا بھی ایک پرزور حمایتی رہا ہے، یہ وہی شخص تھا جب تربت میں بی این ایف کے جلسے کے دوران کوئی اپنا گاڑی ڈر سے کرائے تک پر دینے سے انکاری تھا تو اس نے اپنی گاڑی بغیر کرائے کے یہ کہہ کر دی تھی کہ بس گاڑی میں تیل ڈال دیں اور جب تک استعمال کرنا ہے کرلیں، کچھ عرصے بعد اس شخص کی کچھ ان بن ہوئی تو بی ایل ایف کے ان بہادر سرمچاروں نے اس بوڑھے شخص کو پکڑ کر اس پر ایک جھوٹا الزام لگایا کہ یہ عاشقی کرتا ہے اور عاشقی ایک جرم ہے، پھر ان بہادر سرمچاروں نے اس بوڑھے شخص کو محض بے عزت کرنے کیلئے تین گاوءں کے اسکولوں میں ایک ایک کرکے لے گئے اور سب کے سامنے بے عزت کرکے یہ وارننگ دی کہ جو بھی عاشقی کرے گا اسے بی ایل ایف معاف نہیں کرے گا۔ جب اس شخص سے میں ملا تو اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا کہ یار ان لوگوں نے مجھے مار دیا ہوتا بہتر تھا مگر جھوٹا الزام لگا کر سرے عام رسوا نہ کرتے‘‘ کچھ توقف کے بعد اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ’’ایسا تو آج تک دشمن فوج نے بھی نہیں کیا ہم نے کن لوگوں کے ہاتھ اپنے دفاع کیلئے ہتھیار تھما دیا ہے‘‘۔
اب اس کماش کے الفاظ اور لہجے میں کوئی جھجھک نہیں تھی، اسے تھیوریاں بیان کرنا نہیں پڑ رہی تھی وہ اپنے زمین اور اسکے حالات کے بارے میں بول رہا تھا اس لئے وہ روانی سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا ’’ہمارے گاوءں سے تقریباً آٹھ کلو میٹر دور بی ایل ایف کا کیمپ ہے، اسے ہر کوئی جانتا ہے کہ کس جگہ پر ہے اور اس کیمپ کے ہر سرمچار کو بھی پورا گاوءں جانتا ہے ، اسلئے نہیں جانتا کہ وہ سرمچار مجبوراً ظاہر ہوئے ہیں بلکہ سب نے خود کو خود ہی ظاہر کیا ہے کیونکہ اگر بی ایل ایف کے سرمچار کی حیثیت سے آپکی پہچان ہوتی ہے تو پھر آپ کو غنڈہ گردی اور لوٹ مار کا سند مل جاتا ہے اور کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا اگر کوئی کچھ بولے تو اسے یا تو مار کر غدار قرار دیا جاتا ہے یا اغواء کرکے خوب تشدد کا نشانہ بناکر بے عزت کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے ، کچھ دن پہلے کی بات ہے ہمارے علاقے کے کچھ لوگ اسی طرف پکنک کرنے نکلے تھے، جو اتفاق سے بی ایل ایف کے ہتھے چڑھ گئے بی ایل ایف والوں نے انہیں گرفتار کرکے خوب تشدد کا نشانہ بنایا، جب ثابت ہوگیا کہ وہ لوگ بیگناہ ہیں تو ان سرمچاروں میں سے ایک نے آگے بڑھتے ہوئے اپنا بندوق دِکھاتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا ’’ جگر یہ بندوق ہے، یہ گناہگار اور بے گناہ کے بیچ فرق کو نہیں جانتا‘‘۔
وہ اپنے باتوں میں ایسا ڈوبا ہوا تھا کہ ایک واقعہ ختم ہونے کے بعد فوراً دوسرا ایسے شروع کردیتا جیسے وہ کب سے بولنے کیلئے بیتاب ہو ’’ آپ کو پتہ ہے ایک بار ہمارے گاوءں میں کسی کی شادی تھی ، شادی کی تیاریاں پوری تھی نکاح کا وقت آیا تو دولہا کہیں نہیں مل رہا تھا پھر اچانک پتہ چلا کہ دولہے کو بی ایل ایف والے کسی شک میں اٹھا کر لے گئے ہیں، لڑکی والے ایک دن اور ایک رات دولہے کا انتظار کرتے رہے، شادی کی ساری خوشیاں ماند پڑگئیں پھر علاقے کے کچھ بزرگوں کی کوشش سے وہ دولہا رہا ہوگیا اور بی ایل ایف والے یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے کہ ہمیں اس پر شک تھا اس لئے اسے پوچھ گچھ کیلئے لے گئے تھے یہ بیگناہ ہے اب اسے لیجاو، آپ مجھے بتائیں کے یہ ہمارے دفاع کیلئے لڑ رہے ہیں یا ہمارے اوپر بدمعاشی کرنے کیلئے؟ اب میں آپ کو کیا بتاوں کہ یہ کیسے غنڈے اور بدمعاش ہیں سرمچار نہیں کچھ دن پہلے کی بات ہے ہیرونک میں ایک جلسہ ہورہا تھا تو لوگوں کا آنا جانا تھا میرے گاوءں کے کچھ لڑکے شام 4بجے کے وقت روڈ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے، اچانک وہاں بی ایل ایف کے موٹر سائکل سوار پہنچ گئے اور ان لڑکوں کو جانے کا اشارہ کیا جو انہوں نے نہیں سمجھا پھر بی ایل ایف کے ان اسلحہ برداروں نے ان لڑکوں پر فائرنگ شروع کردی ، جس پر حیران ہوکر ایک لڑکے نے فائرنگ کی وجہ پوچھی تو وہ قریب آکر ان لڑکوں کے پیروں کے بالکل قریب گولیاں برسانے لگے، جس سے وہ لڑکے ڈر گئے اور چلے گئے پھر بعد میں انہوں نے پوچھ گچھ پر یہ جھوٹا جواز بنایا کہ جو خواتین جلسے کیلئے جارہے تھے، یہ لڑکے ان کو تنگ کررہے تھے، حالانکہ انہی لڑکوں کے اپنی ماں بہنیں اس جلسے میں شریک تھیں، اس واقعے کے بعد انہوں نے توبہ کرکے اپنے ماں بہنوں کو آئندہ انکے جلسوں میں بھیجنا چھوڑدیا‘‘۔
اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا ’’معلوم نہیں ان واقعات کی آپ کی نظروں میں اتنی اہمیت ہے یا نہیں کہ ان کو جواز بناکر آپ کے قومی سپاہیوں سے اپنے اٹھتے اعتماد کو بیان کرسکوں، لیکن ایک بات بتاوں ایسا بھی نہیں کہ یہ ہمارے سامنے جس طرح شیر ہیں اسی طرح باہر بڑے تیِر مار رہے ہیں اور دشمن کو نیست نابود کررہے ہیں، نہیں انکا بندوق دشمن کے سامنے خاموش اور خوفزدہ نظر آتا ہے انکی ساری بدمعاشیاں اور سرمچاریاں بس ہم جیسے غریبوں کے اوپر ہیں، انکے اخباری دعویں سب جھوٹ ہوتے ہیں یہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسا آسان کام کرتے ہیں جس سے دشمن نہیں بلکہ ہم عوام ذلیل ہوتے ہیں، گذشتہ دنوں کی بات ہے، ہوشاب میں ایک پانی کا ٹینکی تھا جس سے پورا ہوشاب پینے کا پانی حاصل کرتا تھا، ایک دن یہ بہادر سرمچار آگئے اور اس ٹینکی پر گولیاں برسا کر کہنے لگے کہ اس ٹینکی سے ایف سی والے پانی پیتے ہیں اس لئے اسکی کوئی ضرورت نہیں، اب وہی ایف سی والے قافلے کی صورت میں اپنے لئے ندی سے پانی لاتے ہیں اور پورا ہوشاب پینے کے پانی کیلئے خوار ہے، اور ان میں اتنی جرات بھی نہیں کہ ایف سی پر حملے کرکے انہیں ندی سے دور رکھیں، یعنی ایف سی جو پانی ٹینکی سے لیجاتا تھا اب جاکر ندی سے لاتا ہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑا اور بیچ میں ذلیل ہوشاب کے لوگ ہوگئے ، انکی حکمرانی بس لوگوں پر چلتی ہے نا جانے رات کو کیا خواب دیکھتے ہیں اور اگلے دن آکر عام بلوچوں کو خوار کرتے ہیں ، ایک دن یہی بہادر سرمچار اسکول اسکول گھوم کر اعلان کررہے تھے کہ آج کے بعد یہاں کے اسکولوں میں اردو پڑھنے اور پڑھانے پر مکمل پابندی ہے اور جو پڑھائے گا اسے سزا ملے گی، کوئی انکو بتائے کہ صحیح ہے آپ ریاست کا کام کریں اور اردو پر پابندی لگاکر بلوچی پڑھوائیں اچھی بات ہے لیکن اردو نا پڑھنے کی وجہ سے یہ بچے نا آگے پاکستانی یونیورسٹی و کالجوں میں پڑھ سکیں گے اور نا کوئی ڈاکٹر و انجنیئر بن سکے گا پھر آپ ایسا کریں پابندی لگانے کے بعد لوگوں کو وہ سہولت بھی دیں جو ایک گورنمنٹ دیتی ہے یعنی پھر یہاں بلوچی یونیورسٹیاں بھی بنائیں اور لوگوں کو نوکریاں بھی دیں، لیکن نہیں انکو تو صرف غنڈہ گردی کرنا اور آسان کام کرنے آتے ہیں، اب آپ خود ان کے حرکتوں کو دیکھ کر فیصلہ کریں کہ یہ سرمچار ہیں یا غنڈے ہیں ، ایک دن انکے اسلحہ بردار موٹر سائیکل سوار تجابان اسکول پہنچے اور لوگوں کو اکٹھا کرکے اعلان کرنے لگے کہ تجابان ، ہوشاب اور شاپک کی زمینیں اب بلوچ گورنمنٹ کی ملکیت ہیں، کسی شخص کو زمین کی ضرورت ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرے، یعنی انکے ایک اعلان میں لوگ اپنے باپ داداوں کے ملکیتوں سے ایک پل میں ہی محروم ہوگئے ، بھلا آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ لوگوں کے زمینوں پر قبضہ کرکے خود بانٹیں، آپ ہمیں آزاد کرنے کیلئے لڑ رہے ہو یا ہم پر قبضہ کرنے کیلئے آئے ہو، قوم نے اگر تم لوگوں کی حمایت کی تھی تو وہ اس لئے کہ تم لوگ اس ظالم پاکستان سے ہمیں نجات دیکر آزاد کرو گے لیکن تم لوگ تو اپنے محدود طاقت سے لوگوں کو آزاد کرنے کے بجائے ان پر قبضہ کرکے اپنے ازم ان پر مسلط کررہے ہو‘‘۔
وہ بوڑھا بلوچ مجھے اب بولنے یا سوال پوچھنے کا موقع ہی نہیں دے رہا تھا بس اپنے ہی لے میں بولے جارہا تھا ’’ہمارا علاقہ انہوں نے تباہ کردیا ہے، رات کو نو بجے کے بعد انہوں نے لوگوں پر پابندی لگائی ہے کہ کوئی گھر سے نا نکلے، ہر جگہ اچانک انکی چیک پوسٹیں لگتی ہیں اور یہ لوگوں کی تلاشی لینا شروع کردیتے ہیں اس دوران انکے جامہ تلاشی سے مائیں اور بہنیں بھی نہیں محفوظ نہیں رہتے، مجھے تو یہ پاکستانی فوج کا ہر عمل نقل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمیں اس ظالم فوج سے آزاد کرنے کیلئے نہیں لڑرہے بلکہ یہ پاکستانی فوج سے اتنا متاثر ہیں کہ انہوں نے بندوق اٹھایا ہی انکی طرح بننے کیلئے، اب یہ گھروں میں چھاپے تک لگاتے ہیں، انکو اگر پتہ چلے کہ کہیں کسی بلوچ کے گھر میں بندوق ہے تو وہاں چھاپہ لگاکر وہ بندوق اپنے ساتھ لیجاتے ہیں اور ایسا نہیں کہ وہ یہ سب چھاپے، خود ساختہ کرفیو، ناکہ بندیاں پاکستانی فوج سے مقابلے کیلئے کرتی ہیں، نہیں بلکہ جس دن فوج آتی ہے تو یہ ایسے دم دبا کر بھاگتے ہیں کہ انکے پیروں کے نشان تک نظر نہیں آتے اور فوج بھی آکر ہم عام بلوچوں کو مارتی ، پیٹتی ، گھروں کو جلاتے ہوئے چلی جاتی ہے اور یہ اس دن مدد کیلئے کہیں نظر نہیں آتے جب فوج چلا جاتا ہے تو پھر یہ آکر ایک دو بیگناہ بلوچوں کو مار کر دل کی بڑھاس نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مخبر تھے ، انکا کام بس یہی رہ گیا ہے کسی نا کسی گھر کے پیچھے چھپ کر دور سے فوج پر چند گولیاں چلا کر بھاگ جاتے ہیں اور پھر فوج آکر عام لوگوں کو تنگ کرتا ہے، اور بی ایل ایف اگلے دن اخبار میں درجنوں فوجی مارنے کا دعویٰ کردیتا ہے۔ اہلِ علاقہ کتنی بار انکی منت زاری کرچکا ہے کہ اگر آپ اتنے بہادر ہیں تو نزدیک فوج کے کیمپ ہیں وہاں جاکر حملہ کریں یا انکے کیمپ آتے جاتے دوران ا ن پر حملہ کریں یہ کیا گھروں کے پیچھے چھپ کر چار ہوائی فائر کرکے جھوٹے دعوے کرکے لوگوں کیلئے مصیبتیں کھڑی کردیتے ہو، آپ کو یاد ہوگا کچھ ماہ پہلے ایک بوڑھی خاتون ہمارے علاقے میں بم دھماکے میں جانبحق ہوئی تھی، در اصل اسکے گھر کے سامنے ہی یہ بی ایل ایف والے بم رکھ رہے تھے تو اس عورت نے انکی منت سماجت کی کہ یہاں گھروں کے سامنے کیوں بم رکھتے ہو اس سے ہمیں نقصان ہوگا اور اوپر سے فوج آکر ہمیں پکڑے گی لیکن انہوں نے نہیں مانا بعد میں اس بوڑھی عورت نے اس بم کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تو وہ پھٹ گیا جس سے وہ خاتون جانبحق ہوگئی۔
یہ بولتے بولتے وہ بیچ میں خاموش ہوگیا اور اپنے قریب پڑے پانی کے گلاس کو ہلک میں انڈیلنے کے بعد میری طرف دیکھتے ہوئے وہ دوبارہ مخاطب ہوا ’’مجھے پتہ ہے میں بہت بول رہا ہوں کیونکہ ہمیں بولنے کا موقع بہت کم ملتا ہے ، کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے کہ ان سرمچاروں نے ہمارے علاقے سے ایک 17 سالہ لڑکے کو اغواء کرکے لے گئے جس کا ابتک اتا پتا نہیں سننے میں یہ آرہا ہے کہ وہ لڑکا پہلے انکے ہی ساتھ تھا لیکن اختلاف رکھنے کے بعد وہ ان سے الگ ہوا اور کھلم کھلا اختلافِ رائے کا اظہار کرتا تھا اب اسے اغواء کرنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ یہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتا تھا، یہاں تک نہیں بلکہ اس سے پہلے کئی لوگوں کے گھر اس وجہ سے دھمکیاں پہنچ چکی ہیں کہ کیوں وہ ان “بہادر سرمچاروں‘‘ کے ساتھ ساتھ بی ایس او آزاد اور بی این ایم سے اختلاف رکھتے تھے، حتیٰ کے بی ایس او آزاد سے اندرونی اختلاف رکھ کر نکلنے والوں کو بھی انہوں نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں، ایسے لڑکوں میں سے کچھ تو خوف سے اپنے علاقوں کو نہیں جاتے، ہاں فوج کا خوف نہیں بلکہ بی ایل ایف کے خوف سے، آپ خود بتائیں اب پاکستان میں اور بی ایل ایف میں کیا فرق رہ گیا؟، پاکستان بھی نوجوانوں کو ریاست کے خلاف بولنے پر اغواء کرکے ان پر تشدد کرتا ہے اور بی ایل ایف بھی ان نوجوانوں کو اغواء کرکے ان پر بے جا تشدد کرتا ہے جو بی ایل ایف سے اختلاف رکھ کر بولتے ہیں حالانکہ وہ آزادی پسند ہی ہیں اور قوم دشمن کسی سرگرمی میں بھی ملوث نہیں بس بی ایل ایف ، بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں، باقی علاقوں میں تو آپ نے یہ سنا ہوگا کہ بی ایل ایف نے بی این ایم اور بی ایس او آزاد پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اپنے لوگ بٹھا کر ان کو اپنے مرضی سے چلا رہا ہے لیکن یہاں تو ماحول بالکل عجیب ہے، یہاں پتہ نہیں چلتا ہے کہ بی این ایم کا کون ہے، بی ایس او کا کون ہے اور بی ایل ایف کا کون کیونکہ ایک روز آپ کسی لڑکے کو ہاتھ میں بندوق لیئے بی ایل ایف کے موٹر سائیکلوں پر بیٹھے بدمعاشی کرتے دیکھو گے اگلے دن وہ کسی جگہ تقریر کرتے ہوئے بی ایس او یا بی این ایم کا کوئی عہدیدار ہوگا‘‘۔
جب یہ بات کرنے کے بعد وہ تھوڑی دیر خاموش ہوا تو میں بولنے لگا ’’ناکو یہ صرف شاپک ، تجابان اور ہوشاب کا حال نہیں ہے بلکہ یہ بی آر اے اور بی ایل ایف نے جہاں کہیں قدم رکھے ہیں وہاں حالت ایسی ہی بن گئی ہے، مکران کو چھوڑیں میں آپ کو جعفر آباد کا ایک قصہ سناتا ہوں، جہاں بی آر اے کے ایک بگٹی کمانڈر نے ایک مقامی شریف النفس انسان کو اغواء کرکے تاوان مانگا، پہلے تو سب یہی سوچ رہے تھے کہ یہ ڈاکووءں کا کام ہوگا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ بی آر اے کی کارستانی ہے، تاوان کا رقم زیادہ تھا تو اس لئے انہوں نے یہاں وہاں سے کرکے براہمداغ سے رابطہ کیا اور بندے کو چھوڑنے کی درخواست کی تو براہمداغ نے از خود انہیں یہ جواب دیا کہ اگر تم لوگ تاوان نہیں دوگے تو یہ جنگ کیسے چلے گی، اب آپ خود سوچیں بلوچوں کی اس جنگ کو چلانے کیلئے بلوچوں کو اغواء کرکے ان سے تاوان لینا ضروری قرار دیا ہے انہوں نے، اب تو سننے میں آیا ہے کہ بی آر اے کے جعفر آباد اور نصیر آباد کے علاقوں میں روز کے لوٹ مار ، ڈکیتیوں اور اغواء4 برائے تاوان سے لوگ اتنا تنگ آگئے ہیں ، اب وہاں کے لوگوں کے سامنے آزادی کی بات کرو تو وہ دونوں کانوں کو پکڑ کر چل پڑتے ہیں ، اب تو وہاں کے ریاستی سیاست دان لوگوں کو بی آر اے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مثالیں دیکر ڈراتے ہیں کہ اگر بلوچستان آزاد ہوگیا تو ایسے لوگ ہم پر مسلط ہوجائیں گے، خیر ناکو آپ مجھے یہ بتاو کہ آپ نے ان بی ایل ایف کے کارندوں کے بابت انکے علاقائی ذمہ داروں سے شکایت نہیں کی ہے؟‘‘

میرا یہ سوال سن کر وہ بوڑھا بلوچ ایک سر د آہ بھرتے ہوئے بولنے لگا ’’میں آپ کو ایک بات بتاوءں یہ ہمارے علاقے میں جو بی ایل ایف کے سرمچار و انکے کمانڈر جتنے بھی ہیں یہ زیادہ تر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، یہ سب کے سب نشے کے عادی ہیں ، چرس ، شراب ، تریاق کونسا نشہ ہے یہ نہیں کرتے یہ ہوں یا انکے کمانڈر بہلک سب ماضی میں ہمارے علاقے کے غنڈے بدمعاش اور منشیات فروش ہوا کرتے تھے، جب بی ایل ایف یہاں پہنچی تو ان لوگوں کو اپنے سیاہ کارناموں کو سفید کرنے کا موقع مل گیا ، اس لئے سب بی ایل ایف میں چلے گئے پہلے جب یہ منشیات لوٹتے یا بیچتے تھے تو انہیں منشیات فروش اور سیاہ کار کہا جاتا تھا لیکن اب وہی کام کرنے کے باوجود انہیں سرمچار کہا جاتا ہے اور انکی منشیات فروشی قومی خدمت کہلاتا ہے ، بس فرق یہ ہے کہ پہلے آپ انکے خلاف بولتے تو کچھ نہیں ہوتا لیکن اب جب آپ انکے خلاف بولیں گے تو آپ کو غدار قرار دے کر اغواء یا قتل کیا جائے گا، یہ سب معاشرے کے بدکار لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں ، میں ایک مثال دیتا ہوں آپکو، انکے بی این ایم ہوشاب زون کا صدر پوری رات شراب اور نشہ آور گولیوں کے استعمال کے بعد بدمست رہتا ہے اور صبح اٹھ کر سب سے بڑا انقلابی کہلاتا ہے، اتفاق سے دیکھیں اس ایک خاندان کے نوجوان بی ایل ایف میں جمع ہیں اور انکے والدین نیشنل پارٹی کے خاص بندے ہیں ، شاید مناسب نہیں لیکن میں آپکو انکے کمانڈر بہلک کی ایک اور بات بتاتا ہوں یہ پورا دن یہیں نزدیک ایک خاتون کے گھر میں پڑا رہتا ہے اب میں کیا تفصیلات مزید بیان کروں ، ایک دفعہ تو یہ بہلک اس گھر میں پہلے سے بیٹھا ہوا تھا اور اتنے میں دوسرا سرمچار بھی وہیں پہنچ گیا بات ایک دوسرے پر بندوقیں تاننے تک پہنچ چکی تھی، بی ایل ایف کی مرکزی قیادت انکو کچھ نہیں کہتی کیونکہ یہ اس روٹ سے منشیات کے گاڑیوں سے بھتہ لیکر اللہ نظر کا حصہ اسے پہنچاتے ہیں، جو بھتہ نا دے انکو لوٹ کر یہیں ہمارے بازار میں ہی کلو کے حساب سے سستے دام بیچ کر آدھا حصہ بی ایل ایف کے کمان تک بذریعہ چیئر مین خلیل عرف واجہ موسیٰ پہنچا دیتے ہیں، ڈاکٹر اللہ نظر کو اس وقت لوگوں کی رائے اور حمایت سے کئی گنا زیادہ اہم اپنی لیڈری اور پیسے پسند ہیں پانی سر سے ہی گندلا ہے ہم صفائی کی توقع کہاں سے رکھیں؟،جب کوئی بی این ایم یا بی ایس او آزاد کا جلسہ ہوتا ہے تو یہی بندوق بردار وں کے ساتھ یہ زبردستی چندے کے نام پر فی کس پانچ پانچ سو روپے بھتہ لیتے ہیں اور اگر کوئی دینے سے انکار کردے تو اسے کھلم کھلا دھمکی دی جاتی ہے اور آپ تو اچھی طرح جانتے ہونگے انکی دھمکیاں کھوکھلی نہیں ہوتی ہیں، کتنے بیگناہوں کو انہوں نے مار دیا ہے، ہم غریبوں کو چھوڑیں انہوں نے تو اپنوں کو بھی نہیں بخشا ، سننے میں آیا ہے کہ پہلے شہید کچکول بہار اور بعد میں شہید قمبر قاضی اس گینگ کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے دباو ڈال رہے تھے اور وہ دونوں مبینہ طور پر اسی بہلک گینک کے ہاتھوں شہید ہوئے، اب بھلا آپ خود بولیں ہم جیسا شخص کس کے سامنے شکایت کرے گا۔ اب تو لوگ اپنے گھروں سے چوری ہونے والی اشیاء انکے سرمچاروں کے گھروں میں دیکھتے ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کہتا اور خاموش ہوجاتے ہیں ، میں آپکو انکے بدمعاشی کا ایک اور واقعہ سناتا ہوں آپ بھی میری طرح حیران ہوجائیں گے کہ پیٹ پکڑ کر ہنسیں یا سر پر مٹی ڈال کر روئیں ، یہاں ہمارے علاقے میں ایک کرکٹ کا ٹورنامنٹ چل رہا تھا اس میں ہمارے ان بی ایل ایف والے بہادروں نے بھی ٹیم بناکر شرکت کی لیکن وہ ہار گئے اور فائنل میں نہیں پہنچ سکے اسکے بعد انہوں نے یہ دھمکی دیکر ٹورنامنٹ بند کرادیا کہ اگر ہم فائنل میں نہیں پہنچے ہیں تو اس لئے اس ٹورنامنٹ کا فائنل نہیں ہوگا ورنہ ہر کوئی اپنا ذمہ دار خود ہے‘‘۔
ان باتوں ہی باتوں میں ایک چھوٹا بچہ تھرماس میں چائے لیکر آیا ، ناکو نے اس کے ہاتھ سے تھرماس لیکر پہلے میرے پیالے میں چائے بھرا پھر اپنے تھرماس کا ڈھکن مضبوطی کے ساتھ بند کرنے کے بعد اس نے چائے کا پیالہ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’’میری عقل چھوٹی ہے اور میری دنیا بھی چھوٹی ہے میں اپنے اردگرد سے آگے اندھا ہوں، تم لوگ پڑھے لکھے ہو ہوسکتا ہے میرے یہ چھوٹے چھوٹے بیان کیئے واقعات کسی کیلئے اہمیت نا رکھیں ایسے درجنوں اور واقعات میں آپکو بتاسکتا ہوں لیکن آپ صرف ان واقعات اور ان رویوں سے اخذ کرکے مجھے بتائیں کہ جب کسی سامنے والے کا رویہ ایسا ہو تو پھر کیا آپ اس پر اعتماد کریں گے؟ کیا آپ اس کیلئے جان دینے پر راضی ہونگے؟ کیا آپ اس کیلئے مصائب برداشت کریں گے؟ اس پر سوچ لیں پھر آپ کو آپکا جواب مل جائے گا کہ عوامی اعتماد کیوں کم ہورہی ہے، عوامی اعتماد کیا اب تو ایک طرف انکے رویوں اور دوسری طرف فوج کی لشکر کشیوں کی وجہ سے ہمارے علاقوں سے عوام ہی کم ہورہی ہے ، عوام چکی کے ان دو پاٹوں میں پسنے کے بعد آدھے سے زیادہ یہ علاقے چھوڑ چکے ہیں‘‘۔
ناکو کی یہ باتیں سننے کے بعد میرے پاس اور کوئی جواب نہیں تھا بس ایک سوال رہتا تھا ’’آپ لوگوں کا اعتماد پورے تحریک سے ٹوٹا ہے یا پھر
بی ایل ایف اور بی آر اے سے؟‘‘ جب تک کہ میں نے سوال پوچھا ناکو دوسری مرتبہ پیالوں میں چائے بھر چکا تھا، وہ چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولنے لگا ’’آزادی پر آج تک ہمارا ایمان ہے، لیکن ہم اپنی جانیں ایسے تنظیموں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے، ہاں ہم نے سنا ہے کہ بی ایل اے ان سے مختلف ہے، بلوچستان میں ان سے اس طرح کی شکایتیں کبھی سننے کو نہیں ملی ہیں اور اب مکران میں وہ منظم ہورہے ہیں امید کرتے ہیں وہ ایسے نہیں نکلیں گے‘‘، میں نے ناکو کے باتوں کو کاٹتے ہوئے اگلا سوال بھی پوچھ ڈالا ’’آپکو کیا لگتا ہے بی ایل ایف اور بی ایل اے میں کیا فرق ہے؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھے بغیر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولنا شروع کیا ’’میں نے کہا نا میری عقل و سمجھ بہت چھوٹی ہے، تو میں تمہیں ایک پرانا روایتی چھوٹا سا مثال ہی دے سکتا ہوں بی ایل ایف سانپ کی طرح ہے اور بی ایل اے شیر کی طرح ، شیر جتنا بھوکا ہوجائے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے تازہ شکا ر ہی ڈھونڈتا ہے اور اپنا شکار خود ہی کرتا ہے لیکن جب سانپ بھوکا ہو تو وہ اپنے ہی بچوں کو کھانا شروع کردیتا ہے اب بی ایل ایف اپنے ہی بچوں کو کھا رہا ہے‘‘۔

*:پنجگور و پروم اور بی آر اے :۔
ایک بار پھر موضوع وہی عوامی اعتماد مکران کے حالات اور گٹھتی عوامی حمایت کی وجوہات تھی، لیکن مقام پروم تھا اور سامنے ایک بوڑھے بلوچ کے بجائے یونیورسٹی کا پڑھا لکھا نوجوان تھا، جو ایک طرف اپنے گردو پیش کے حالات سے مایوس بھی تھا لیکن ساتھ میں وہ بار بار اس امید کا اظہار بھی کررہا تھا کہ ایسے اعمال کو سمجھنے اور ان پر تنقید کرنے والے وجود رکھتے ہیں۔ ’’آپ کو معلوم ہے پروم منشیات ، اسلحہ اور ڈیزل کے غیر قانونی رسد کا سب سے بڑا اڈہ ہے، ساری گاڑیاں یہاں سے گذرتی ہیں، اسی وجہ سے اس علاقے کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے بی آر اے اور بی ایل ایف میں ایک ریس لگی ہوئی ہے کیونکہ منشیات اور بتھے کے بدولت یہاں سے انہیں ہر سال کروڑوں حاصل ہوتے ہیں، اب یہاں باہمی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایک ایسا شیطانی کھیل چل رہا ہے جو اس کے کرداروں کو لے ڈوبے گا ہی لیکن قومی تحریک کو بھی ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچانے کا سبب بنے گا کیونکہ اس علاقے کے منشیات فروش، منشیات کے عادی، بد کردار لوگوں کو رہنے کیلئے اڈہ، چلانے کیلئے بندوق، لوٹنے کیلئے ساتھی اور بیچنے کیلئے محفوظ مارکیٹ کی ضرورت تھی تو ایسے لوگوں کی ضروریات بی ایل ایف اور خاص طور پر بی آر اے پورا کرتا ہے اور پھر ان مذکورہ تنظیموں کو علاقے پر ہولڈ رکھنے اور دوسرے تنظیم پر سبقت حاصل کرنے کیلئے تاکہ زیادہ سے زیادہ منشیات کے کاروبار اور لوٹ مار سے پیسے بنائے جائیں لوگوں کی ضرورت تھی تو انکی ضرورت یہ جرائم پیشہ افراد اپنے شمولیت سے پورا کرتے ہیں، اب تحریک آزادی یا جنگ آزادی یہاں نام کی رہ چکی ہے خانہ پری کیلئے دور سے چار فائرکرکے درجنوں ہلاک کرنے کے دعوے کرکے قبول کرتے ہیں لیکن در حقیقت یہاں تنظیم، تنظیم کے سرمچار، تنظیموں کا وقت، محنت سب زیادہ سے زیادہ مال بنانے پر لگا ہوا ہے ، اب بد قسمتی یہ ہے کہ سبقت حاصل کرنے اور مال بنانے کیلئے انہوں نے ایسے ایسے لوگ اپنے تنظیموں میں بھرتی کرکے کمانڈر بنائے ہوئے ہیں جن
کے کردار و اعمال قومی تحریک کیا ایک عام بلوچ تک کے مفادات سے متصادم ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس علاقے میں لوگوں کو خوش کرکے رکھنے کیلئے اتنے کمانڈری کے خطابات دیئے گئے ہیں کہ اب سپاہی کم اور کمانڈر زیادہ ہیں اور اوپر سے کسی کے جانبحق ہونے کی صورت میں ایسے ایسے خطابات دیئے جاتے ہیں کہ ان لوگوں کے کردار اور انکو حاصل خطابات کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے‘‘۔ وہ نوجوان سنجیدگی کے ساتھ حتی الوسع اپنے علاقے کے حالات کا خلاصہ بیان کرتے جارہا تھا۔
میں نے اسکے باتوں کو کاٹتے ہوئے اس سے پوچھا “ایسے بدکردار کمانڈروں سے تمہارا کیا مراد ہے؟ ‘‘ وہ اپنے کمر بند کو مزید کس کر باندھتے ہوئے دوبارہ مجھ سے مخاطب ہوا ’’تعریف کے قابِل تو ان میں کوئی نہیں ہے لیکن میں بی آر اے کے ایک علاقائی ذمہ دار عرفی کریم داد کو بطور مثال پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے لوگوں کا جینا کیسے حرام کیا ہوا ہے ،یہ بے لگام سرمچار جو کریم داد کے نام سے مشہور ہے کو مکران میں بی آر اے کے کمانڈر گلزار نے مکمل چھوٹ دی ہوئی ہے، اس کا کام صرف اور صر ف چوری اور لوٹ مار کرنا ہے، آج تک دشمن کو اس نے شاید بال برابر بھی نقصان نہیں دیا ہوگا لیکن نام کا کمانڈر ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ منشیات لوٹتا ہے اور اسکا باپ جاکر وہ منشیات بیچتا ہے ایک دو دفعہ اس کے باپ کو علاقائی لوگوں نے منشیات کے اڈوں پر اپنے بیٹے کے چوری کردہ منشیات بیچتے ہوئے دیکھا ہے، یہ شخص جرائم کے کئی سنگین وارداتوں میں ملوث ہے، ایک دفعہ اس نے کسی گاڑی کو منشیات والا سمجھ کر بلا اشتعال اس پر شدید فائرنگ شروع کردی، جس کی وجہ سے گاڑی میں سوار دولہا، دلہن اور ایک لڑکا گولیوں کی زد میں آکر شدید زخمی ہو گئے تھے بعد میں انکو زخمی حالت میں علاج کیلئے کراچی آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں اس نو عمر لڑکے کی ایک ٹانگ کو ڈاکٹروں نے کاٹ دیا تھا کیونکہ اسکی ٹانگ گولیاں لگنے کی وجہ سے ناکارہ ہوگیا تھا، یہ لوگ پنجگور سے زامران جا رہے تھے اس زخمی دولہے کا نام عبد العزیز ولد غلام رسول ہے جو زامران کا رہائشی ہے اور آجکل پنجگور میں رہتے ہیں‘‘ یہ بیان کرنے کے بعد وہ تھوڑی دیر خاموش ہوگیا پھر اپنی بات خود ہی منقطع کرکے مجھ سے پوچھنے لگا کہ ’’آپ پوچھ رہے ہو کہ عوامی حمایت کیوں ختم ہورہی ہے، آپ مجھے صرف یہ جواب دیں کہ وہ نو عمر لڑکا جو اب پوری زندگی پیروں سے معذور ہوچکا ہے اسے آپ کیا بتائیں گے کہ تم معذور اپنے محافظوں کے ہاتھوں ہوئے ہو اور وہ بھی غلطی سے یا فوج پر کسی حملے کے زد میں آنے سے نہیں بلکہ تمہارے قومی محافظوں کو منشیات اور پیسے کی لَت لگی ہوئی ہے اور وہ تمہیں منشیات فروش سمجھ کر لوٹنے آرہے تھے اس لیئے، آپ مجھے بتائیں کیا آپ اس لڑکے کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں؟ بالکل نہیں، یہ تو ایک واقعہ اور ایک متاثرہ ہے اب تو ایسے درجنوں متاثرین اور درجنوں واقعات روز رونما ہورہے ہیں‘‘۔

میں بس اسکی باتیں سن رہا تھا اور نفی میں سر ہلا رہا تھا شاید اسے بھی پتہ تھاکہ اسکے سوال کا جواب میرے پاس نہیں یا اسکا سوال خود ہی ایک جواب ہے اس لیئے مجھے موقع دیئے بغیر اس نے دوبارہ اپنی بات وہیں سے جاری رکھا ’’اس واقع کے علاوہ عرفی کریم داد نے بہت سی چوریاں کی ہیں بلکہ وہ سرمچار کم اور چور زیادہ ہے علاقائی لوگ اس شخص سے عاجز آچکے ہیں ،ایک دفعہ رات کے اندھیرے میں ایرانی ڈیزل
لانے والے ایک گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا، ڈرائیور سمجھا کہ شاید یہ چور ہیں کیونکہ اس علاقے میں اکثر چوریاں ہوتی ہیں، اس لیئے اس نے گاڑی نہیں روکا تو اس عرفی کریم داد نے اندھا دھند فائرنگ کرکے ڈرائیور اور اسکے ساتھ بیٹھے مزدور کو قتل کردیا۔ مقتولین میں سے ایک کا نام عارف تھا یہ محض دیہاڑی مزدوری کرتے تھے گاڑی انکا نہیں تھا انکو ایک چکر لگانے پر 5 ہزار روپے ملتا تھا لیکن صرف اپنے پیسے اور بھتے کی ہوس میں ان دونوں بے گناہ بلوچوں کو قتل کردیا گیا، یہ دونوں مقتولین پروم کے رہائشی بلوچ تھے، انکے غنڈہ گردیوں کے قصے محض پہاڑوں یا ویرانوں تک محدود نہیں بلکہ شہروں میں بھی اپنا بھرم اور دھاک بِٹھانے کیلئے روز یہ کوئی نا کوئی ایسی حرکت کردیتے ہیں جس سے تحریک بدنام اور لوگ بد دل ہوتے ہیں، ابھی ایک مہینہ نہیں ہوا ہے کہ اسی شخص نے پروم کے علاقے خدا دوست بازار میں رات کے وقت بغیر کسی وجہ کے نشے کی حالت میں فائرنگ شروع کردی صرف لوگوں کو اپنا بھرم دکھانے کیلئے لیکن اسے لینے کے دینے پڑگئے کیونکہ اسی وقت اہلِ محلہ اور علاقہ والوں نے تمام گلیاں بند کر کے اس کو نشے کی حالت میں بندوق سمیت پکڑ لیا اور بندوق گاڑی سب کچھ اس سے چھین کر کافی بے عزت کرکے کہا تھاکہ تم رات کے اس وقت کیوں بغیر وجہ نشے کی حالت میں فائرنگ کر تے ہو بعد میں خواتین کی منت سماجت پر اہل علاقہ نے اس کو یہ کہتے ہوئے چھوڑدیا تھا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرنا ، قصہ یہاں مختصر نہیں ہوتا کریم داد خود کو اس علاقے کا مالک سمجھتا ہے کیونکہ وہ خود بی آرے اور اسکا دوسرا بھائی بی ایل ایف کے ذمہ دارہیں، اس نے اس واقعے کو اپنا بے عزتی سمجھ کر بدلا لینے کا ٹھان لیا اور اگلے ہی دن اس نے اسی علاقے سے حبیب ولد احمد نامی ایک لڑکے کو اٹھا کر اس پر بے حد تشدد کرکے واپس پھینک دیا، اس غیر انسانی اور غیر اخلاقی تشدد کی وجہ سے اب حبیب معزور ہوکر اپنے گھر میں بستر پر پڑا ہوا ہے، ویسے یہ لڑکا حبیب اکرام کا بڑا بھائی ہے، اکرام وہ شخص ہے جس کو پروم آپریشن کے دوران ایف سی نے شہید کیا تھا پھر بی آر اے نے اس کو کوہ گرد کا خطاب دیا تھا‘‘۔
یہ کہنے کے بعد وہ اپنے آپ مسکرانے لگا اور خاموش ہوگیا، اسکے مسکراہٹ میں موجود طنز اور خاموشی کو بھانپ کر مجھے لگا ضرور اسکے دل میں کوئی بات ہے ، میرے پوچھنے پر اس نے بات ٹال دی لیکن میرے اصرار پر وہ بولنے لگا ’’جب بی ایل اے نے خطابات دینا شروع کیا تو اس وقت میری ایک ہی خواہش تھی کہ میں ایسی تاریخ رقم کروں کے مجھے بعد از شہادت کوئی خطاب دی جائے اور میں ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوجاوءں لیکن مجھے لگتا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے کیونکہ میں ان لوگوں کو دیکھتا جن کو بی ایل اے نے خطاب دیا تھا اور اپنا کردار دیکھتا تو بہت وسیع خلیج پاتا، یعنی امیربخش ، ماما مہندو ، صبا دشتیاری ، سارے پھلین شہید ، مجید لیکن بی ایل اے کی نقل کرتے ہوئے جب بی آر اے نے شہید قرار دینے اور خطابات دینے کا سلسلہ شروع کردیا تو پھر مجھ جیسے نکموں کا راستہ صاف ہوگیا، اب ذرا دیکھیں سیاہ کاری میں مرنے والا حق نواز بگٹی کو شہید قرار دیکر اسکی تصوریں لگائی جاتی ہیں اور خطابات روڑیوں کی طرح بٹتی ہیں، میں جس لڑکے حبیب کا ذکر کررہا تھا اسکا بڑا بھائی اکرام کوئی اتنا بڑا مسلح جہد کار نہیں تھا بلکہ یہ ایک شپانک تھا اس نے شاید دو تین دفعہ اپنے گدھوں پر بی آر اے والوں کے راشن ان کے کیمپ تک پہنچائے تھے، مگر گلزار سستی شہرت اور اہمیت حاصل کر نے کے لئے بغیر کسی کردار کے معمولی کرداروں کو اتنے بڑے خطابات سے نواز تا ہے، اس سے پہلے بھی گلزار نے ایک لیویز اہلکار وہاب جو ایف سی کے ہاتھوں شہید ہوا تھا کو دستار ورنا کا خطاب دیا تھا، اگر اس شخص
نے کوئی کردار ادا کیا تھا تو وہ منشیات لوٹنے اور اسکو اچھے داموں بیچنے کا کارنامہ انجام دیا تھا ورنا اسکے کردار سے سب واقف ہیں‘‘۔ اپنی یہ بات مکمل کرنے کے بعد وہ ایک بار دوبارہ اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے مجھ سے پوچھنے لگا ’’تنظیم سے لیکر اسلحہ تک ، ذمہ داری قبول کرنے کی روایات سے لیکر خطابات دینے تک گوکہ ہر چیز ان تنظیموں نے بی ایل اے سے مستعار لیا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ ہر خوبصورت چیز یا روایت کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اسے پست ترین سطح تک کیوں پہنچاتے ہیں؟‘‘ اسکے جواب میں میرے پاس صرف ایک خفیف سی افسوس آمیز مسکراہٹ تھی۔
وہ جانتا تھا کہ جو میں سوچ رہا ہوں وہی وہ خود سوچ رہا ہے اس لئے میرے جواب کی ضرورت کو محسوس کئے بغیر وہ دوبارہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولنے لگا ’’یہ طرز عمل صرف کریم داد پر موقوف نہیں بلکہ گلزار سے لیکر انکا ہر علاقائی کمانڈر ایسے بد کرداریوں سے اٹے ہوئے ہیں، ابھی ایک ہفتے پہلے کی ہے بات ہے کہ بی آر اے کے ان سرکشوں نے سلام نامی شخص کو قتل کر کے تقریبا دو ہزار کلو منشیات اس سے پروم میں لوٹ لیا تھا، اب یہ بات یقینی ہے کہ منشیات کی یہ بھاری مقدار ہمیشہ کی طرح بی آر اے ایک بار پھر یہیں مکران میں بیچ دیگا اور بلوچ نسل کے رگوں میں مزید زہر چند پیسوں کیلئے گھول دیں گے‘‘۔
میں نے اسکی بات مکمل ہوتے ہی اسے سانس لینے تک کا فرصت دیئے بغیر وہی سوال اس نوجوان سے پوچھا جو میں نے ناکو سے پوچھا تھا ’’اہل علاقہ ان سے اتنا تنگ آچکے ہیں تو پھر آپ لوگ انکی شکایت انکے لیڈروں کو کیوں نہیں کرتے، تم لوگ براہمداغ تک اپنی بات پہنچا دو یا انکے مکران کے کمانڈر گلزار سے کسی طور مل کر اسکے سامنے اس منشیات کے دھندے اور لوگوں کو تنگ کرنے کے بابت شکایت کرو ‘‘۔ اس نے میرا سوال سن کر طنزیہ نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے ایک ہلکی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بولنے لگا ’’براہمداغ کو جیسے آپ نہیں جانتے ہیں وہ ڈیرہ بگٹی سے سوئٹزر لینڈ قوم کا نام لیتے لیتے تو پہنچ گیا لیکن وہ اب تک نوابزادے سے بدل کر لیڈر نہیں بن سکا ، اس تک ہم جیسے غریبوں کی پہنچ کہاں اور جہاں تک گلزار کی بات ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے اسکو معلوم نہیں؟ بلکہ یہ سب کچھ اسکے رضا اور مرضی سے ہورہا ہے، پہلے گلزار مند کے علاقوں میں تھا مگر اب تو گلزار منشیات کے بندر بانٹ اور اس میں حصوں کا تعین کرنے کیلئے خاص طور پر پروم میں بیٹھا ہوا ہے اور بات اتنی سادہ بھی نہیں گردو پیش کے حالات سے واقف لوگ کہتے ہیں کہ گلزار ان منشیات سے اپنا حصہ لیکر عمان میں اپنے ذاتی کاروبار کو مزید وسعت دینے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گلزار نے اس منشیات سے آنے والی کروڑوں کی آمدنی سے عمان میں اپنا کاروبار شروع کیا ہوا ہے، اور کچھ ذرائع تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آ جکل اس کاروبار کی ذمہ داری گلزار نے اپنے بھائی حسن اور کچھ دوسرے لوگوں کے سپرد کیا ہے، اب آپ کو پتہ ہوگا کہ گلزار کا بھائی حسن مقبول شمبیزئی کا خاص بندہ ہے جو پہلے بی ایل ایف میں تھا اور کہتے ہیں کہ وہاں اس نے پاکستانی خفیہ اداروں کے کہنے پر بی ایل ایف اور بی آر اے کے کئی سرمچاروں کو دھوکے سے شہید کردیا تھا، گلزار نے اپنے بھائی کو محفوظ راستہ فراہم کرتے ہوئے عمان بھیج دیا جہاں ایک طرف وہ اسکا کاروبار سنبھال رہا ہے تو دوسری طرف اسکے بیرون
ملک ہونے کی وجہ سے گلزار بھی لوگوں کے اس دباو سے بچا رہے گا کہ وہ اپنے بھائی کو کیوں نہیں مارتا ‘‘۔
اس نوجوان کے بیٹھک میں ایک اور مہمان کے آنے کی وجہ سے تھوڑی دیر کیلئے ہماری گفتگو معطل ہوگئی، حال احوال اور چائے پانی کے بعد جب وہ مہمان جلد ہی رخصت ہوا تو تھوڑی دیر ایک خاموشی طاری ہوگئی اور وہ پھر اچانک بولنے لگا ’’یہ تحریک آزادی جب شروع ہوئی تو یہ بہت سے سرفروشوں کیلئے آزادی کی نوید تھی، کئی اپنے جان سے گذر گئے اور کئی مخلصی اور گمنامی کے ساتھ اپنا کردار نبھارہے ہیں لیکن جہاں یہ تحریک آزادی کی نوید تھی وہیں جس طرح مفاد پرست و خود پرست عناصر دنیا کے ہر شعبے میں اپنے فائدے کیلئے گنجائش پیدا کرتے ہیں اسی طرح ایسے عناصر اس تحریک میں بھی اپنے لئے فائدے دیکھ کر اس سے جڑ گئے، اور پیسے،شہرت،طاقت،رعب کی صورت میں اس سے فائدہ بٹورنے لگ گئے اور آج جس عوامی بد اعتمادی کی ہم بات کررہے ہیں یہ ایسے ہی عناصر کی پیدا کردہ ہے اور جب تک یہ جونک کی طرح تحریک کی جسم سے جڑ کر اسکا خون چوستے رہیں گے مجھے کامیابی مشکل نظر آرہی ہے، انکا ہونا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے انکے نا ہونے سے اگر کم تعدادی کی وجہ سے کوئی بڑا معرکہ سر نا ہوگا تو کم از کم نقصان تو نہیں ہوگا، خیر میں کیا بول رہا تھا‘‘۔
اپنے اس خدشے کے اظہار کے بعد وہ سوال پوچھ کر خود ہی جواب دیتے ہوئے بولا ’’ہاں، منشیات کا کاروبار ، حسن جو مقبول شمبیزئی کا ساتھی ہے وہ عمان میں بیٹھ کر گلزار کا کاروبار دیکھتا ہے، جبکہ دوسرے لوگ اپنے اپنے حصوں کوقریبی منشیات کے اڈوں میں سستے داموں بیچ دیتے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ اگر منشیات فروشوں کو مارتے ہیں تو پھر وہ منشیات خود کیوں بیچتے ہیں ، منشیات تو وہی منشیات ہے جسے کوئی سمگلر بیچے یا سرمچار کچھ وقت پہلے بھی انہوں نے ایک منشیات فروش سیٹ وارث کے 4 منشیات سے لدی گاڑیوں کوگاڑیوں سمیت لوٹ لیا تھا اور اس دوران سیٹ وارث کا بیٹا بھی ان کے گولیوں سے ہلاک ہوا تھا پھر منشیات کے اس کھپت کے بندر بانٹ پر گلزار اور بی آر اے کے ایک سابق کمانڈر عرفی کمالو کے بیچ جھگڑا ہو ا تھا پھر اسی جھگڑے اور اختلافات کی وجہ سے کمالو ان کو چھوڑ کر بی ایل ایف میں شامل ہوگیا وہ بھی سیدھا کمانڈر کے عہدے پر، ان کے منشیات کے کاروبار نے پورے پروم کو منشیات کا عادی بناد یا ہے اب تک ان لوگوں نے اربوں روپے مالیت کے منشیات لو ٹے ہیں پھر علاقے میں سستے داموں بیچ دیا ہے۔ اب تو ہمارے علاقے میں یہ نیا ٹرینڈ شروع ہوا ہے کہ سب چور،ڈاکو اور نا لائق لوگ بی آر اے کو مال غنیمت سمجھ کر چو ری ڈکیتی کے لئے اس میں شامل ہو رہے ہیں پھر لوگوں کو بلاوجہ تنگ کر تے ہیں اس وقت پروم میں بی آر اے مکمل لیاری گینگ وار کی شکل اختیار کر چکا ہے،عرفی کریم داد کے ساتھ گلزار کا ایک اور چھوٹا بھائی گوری بھی ہے اس نے بھی لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے‘‘۔
اتنا کہنے کے بعد وہ اپنے سر کو جھٹک کر بولنے لگا ’’میں ایک دلچسپ بات بھول گیا، بی این پی عوامی کے سابقہ رکن اور وزیر ماحولیات غلام جان کو جب ضروت پڑتی ہے تو یہی عرفی کریم داد جا کر غلام جان کے باڑی گارڈ کے فرائض بھی سرانجام دیتا ہے، ویسے کریم داد اہل علاقہ
کیلئے ایک چور ، ڈاکو ، سمگلر تو ہوسکتا ہے لیکن سرمچار نہیں کچھ عرصہ پہلے کریم داد نے پروم کے دو شہریوں کے موبائل فون بھی ایک دفعہ سر عام چھین لیا تھا، بات لوگوں کو مال سے محروم کرنے تک بھی محدود نہیں انکے ہاتھوں معلوم نہیں کتنے معصوم جان ضائع ہوئے ہیں، کچھ دن پہلے وزیر نامی شخص کے کھیت جو انکے گھر سے تقریباً 700 قدم سے زیادہ دور نہیں ہو گا، میں ان لوگوں نے ایک مائن نصب کیا تھا کہ شائد یہاں ایف سی لکڑی جمع کر نے آئے گی اور وہ اس مائن کے زد میں آجائیں گے مگر بد قسمتی سے وزیر کا 15 سالہ لڑکا امین اللہ جب اپنے ریوڑ کو لے کر اپنے کھیت کی طرف جارہا تھا تو اس کا پیر مائن پر آگیا جس سے مائن بلاسٹ ہوگیا جس سے امین اللہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے بعد میں اہل علاقہ نے اس کے چھیتڑوں کو اکھٹا کر کے دفنا دیا، مجھے سمجھ نہیں آتا یہ کونسی جنگی حکمت عملی ہے کہ لوگوں کے گھروں کے سامنے مائن نصب کرو، انکی بد کرداریاں ایک طرف لیکن انکے جنگ کے طریقوں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ کے اسلوب و رموز سے رتی بھر واقف نہیں، انکی تربیت ہی بس اندھا دھند گولی چلانے اور لوٹنے کی ہے، یہ لوگ علاقے میں لوگوں کے گھروں کے دیواروں اور کجھوروں کے باغات سے ایف سی پر راکٹ فائر کرتے ہیں، پھر ایف سی سیدھا لوگوں کے گھروں پر گولہ باری شروع کردیتا ہے جس سے لوگ کافی تنگ اور پریشان ہیں، کیونکہ ان کے گھروں سے ایف سی کیمپ ڈیڑھ کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں۔ انکا ایک اور کمانڈر عرفی میجر کی کارستانیاں بھی کم نہیں کچھ دن پہلے عرفی میجر نے کاٹاگری کے علاقے میں ایک دکان دار کو کافی دیر تک صرف اس لیئے زدوکوب کیا کیونکہ اسکا دکان بند تھا اور انہیں راشن لینا تھا‘‘۔
اپنی بات پوری کرنے کے بعد اس نے اپنا کمر بند کھول کر پہلی بار ٹانگیں پھیلاتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا ’’معلوم نہیں مجھے یہ ثابت کرنے کیلئے اور کتنے واقعات سنانے پڑیں گے کہ عوامی اعتماد کو توڑنے اور حمایت سے دور کرتے جانے کی وجہ اوپر سے لیکر نیچے تک بی آر اے اور بی ایل ایف ہے، مجھے پتہ ہے ان تنظیموں میں اچھے لوگ بہت ہونگے لیکن انکی خاموشی غلط کو مزید مضبوط کررہا ہے، جو براہ راست ملوث ہیں وہ تو آج بھی قوم کی نظروں میں نِیچ حیثیت رکھتے ہیں لیکن جو خاموش ہیں تاریخ ضرور انہیں بھی شریک جرم ٹہرائے گی۔‘‘

میں نے ناکو سے آخر وقت اٹھتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’’ناکو ہم عوامی حمایت کیسے بحال کرسکتے ہیں‘‘ تو ناکو نے اپنا روایتی جملہ دہراتے ہوئے کہا ’’میرا چھوٹا سا سوچ ہے، کم عقل ہوں مجھے زیادہ نہیں پتہ لیکن اتنا جانتا ہوں عوامی اعتماد و حمایت پانے کیلئے کم از کم یہ نہیں کرو جو ابھی کررہے ہو‘‘۔
(نوٹ:مندرجہ بالا تحریر میں واقعات سچے اور ترتیب تصوراتی ہے یہ مضمون مکمل ہے لیکن یہ سلسلہ مکران کے باقی علاقوں کے بابت جاری ہے )

یہ بھی پڑھیں

فیچرز